جرمنی اور شام کے تعلقات کی پیچیدگیاں

Intelligence

Intelligence

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) مبینہ جنگی جرائم میں ملوث شام کے انٹیلیجنس اہلکاروں کو جرمنی کی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا ہے۔

شام میں جاری مسلح تنازعے کو ایک دہائی ہو گئی ہے۔ اس عرصے میں وہاں ہونے والے جنگی جرائم کی تفصیلات منظر عام پر آچکی ہیں۔ جرمنی میں ایسے جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے شامی افراد پر مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔

رواں برس چوبیس فروری کو کوبلنز شہر کی اعلیٰ عدالت نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا، جس کے تحت ایاد اے نامی شامی انٹیلیجنس کے ایک اہلکار کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے کر ساڑھے چار برس کی سزائے قید سنائی گئی۔

جرمنی: شامی مہاجرین کی واپسی پر عائد پابندی ختم

ایاد اے کم از کم تیس جنگی جرئم کا مرتکب یا ان میں سہولتکار پایا گیا، جس کی اسے عالمی قوانین کے تحت سزا سنائی گئی۔

شامی فوج کے انٹیلیجنس ونگ کے ایک کرنل انور آر کو بھی جرمنی میں عدالتی کارروائی کا سامنا ہے

ایاد کے علاوہ جرمنی میں شامی فوج کے انٹیلیجنس ونگ کے ایک کرنل انور آر کو بھی عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔انور آر بدنام جیل 251 میں تفتیش کار تھا۔ اس پر چار ہزار افراد پر تشدد اور ٹارچر کے الزامات ہیں۔

ایاد اے کے مقدمے میں جج کو گھنٹوں شامی مہاجرین کی شہادتیں سننا پڑی تھیں۔ ان کی بنیاد پر جج نے فیصلے میں کہا کہ شہری آبادیوں پر منظم انداز میں کیے گئے حملوں میں ملزم کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔

اس مقدمے کا فیصلہ آنے میں ایک سال لگا۔ اس دوران بے شمار شامی مہاجرین نے عدالت میں جنگی جرائم کے حوالے سے شہادتیں پیش کی۔

دوسری جانب یورپ میں جرمنی پہلا ملک ہے جس نے جرائم میں ملوث شامی مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ابھی اس پر عمل شروع نہیں کیا۔

اس وقت جرمنی میں ان انتہائی خطرناک شامی افراد کی تعداد نوے کے قریب ہے، جنہیں واپس بھیجا جا سکتا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ خطرناک افراد کی واپسی کے لیے جرمن حکام کو شامی حکومت سے رابطے بڑھانے ہوں گے جو درست فیصلہ نہیں ہو گا۔

خطرناک شامی مہاجرین کی واپسی کی بعض سیاستدان بھی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو یہ جرمنی میں عوامیت پسند اور مہاجرین مخالف حلقوں کے دباؤ میں کیا جائے گا۔

جرمنی نے شامی دارالحکومت دمشق میں اپنا سفارت خانہ سن 2012 میں بند کر دیا تھا لیکن شام کے ساتھ رابطے پوری طرح منقطع نہیں کیے تھے۔

بون یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر اشٹیفان ٹالمون کے مطابق یہ انتظامی روابط اب بھی قائم ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تعلقات میں کمی بیشی ایک قدرتی عمل ہے اور اس وقت تعلقات کی سطح کم ضرور ہے لیکن موجود ہے۔

شام میں انسانی حقوق کی صورت حال کو جرمن وزارتِ خارجہ انتہائی تباہ کن قرار دیتی ہے۔