پکی ہے فصل سروں کی کٹائے دیتے ہیں

Ghazal

Ghazal

پکی ہے فصل سروں کی کٹائے دیتے ہیں
بہ فیضِ عشق و جنوں لب ہِلائے دیتے ہیں
لو آج جھگڑے مٹا کر عروج و پستی کے
ہم اس زمیں کو فلک سے ملائے دیتے ہیں
اُگیں گے موسمِ صد رنگ راکھ سے اِس کی
اِسی لئے تو یہ گلشن جلائے دیتے ہیں
نگاہِ روحِ عصر منتظر تھی جس کے لئے
نظر نظر وہی منظر سجائے دیتے ہیں
سمندروں کے سفر سے پلٹ کے آنا نہیں
یہ بادبان، یہ کشتی جلائے دیتے ہیں
اتار لینا فرازِ صلیب سے ہم کو
ہم اپنے نام کا کتبہ لکھائے دیتے ہیں
ستم گری کے یہ زندان آج ہی ساحل
جو ساتھ دو تو میری جاں گرائے دیتے ہیں

ساحل منیر