تیرے وعدہ پر جئے تو؟

Shaukat Tareen

Shaukat Tareen

تحریر : الیاس محمد حسین

پاکستانی قوم کا بھی وہی حال ہے جس کا اظہار کبھی مرزا غالب نے کیا تھا

تیرے وعدے پر جیئے تو یہ جان جھوٹ جانا
ہم خوشی سے مرنہ جاتے گر اعتبار ہوتا

حکومت نے جو اعلان کیا اس سے عوام خوشی ے نہال ہوگئے کہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے نوید سنائی ہے کہ غریب کے ساتن سیاست ہوگی نہ منی بجٹ آئے گا ان کا کہنا تھا ہمارا چیلنج ”سب کے لئے گروتھ ”کرناہے کابینہ کی شدید مخالفت کے بعد موبائل کالز، انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ مؤ خرکردیا گیاہے جبکہ ڈالر کما نے کے لئے بر آمدات کو بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے، ریونیو کوجی ڈی پی کے20 فی صد پر لانا پڑے گا تاکہ ادھار لئے بغیر ترقی پر خرچ کر سکیں ہم نے ٹیکس نیٹ میں 3 لاکھ 12ہزار افراد کا اضافہ کیا، اسکو10 لاکھ تک بڑھایا جائے تو اس سے 75 سے100 ارب روپے ریونیو بڑھے گا جس سے ملکی معیشت مستحکم ہوگی ۔وزیر خزانہ کا یہ بھی کہنا تھا صارفین کے لئے پکی رسید کی بنیاد پر پہلے مرحلے میں 25 کروڑ روپے انعامات کی سکیمیں لا رہے ہیں پھر اس رقم کو ایک ارب روپے بڑھا دیا جائے گا پنشن کا بوجھ ہمارے ، صوبوں اور فوج کے لئے ناقابل برداشت ہو گیا اس کے باوجود منی بجٹ نہیں لائیں گے ہم نے آئی ایم ایف پر واضح کردیا ہے کہ جو ٹیکس دے رہے ہیں ان پر ٹیکس نہیں لگائیں گے ہمارا ریونیو ہدف جارحانہ ضرور ہے لیکن ہم نے یہ کرلیا تو ایک مالی گنجائش ملے گی ،جس کو ہم زراعت میں استعمال کرسکیں گے۔

ہمارا ملک خوراک کی کمی کا شکار ہے اور ا ہم نے فصلوں پر توجہ نہیں دی اور اب ہم اس پر توجہ دیں گے۔ خصوصی اقتصادی زونز سے ٹیکسز ختم کردیے ہیں تاکہ چین سے سرمایہ کار پاکستان میں چیزیں بنا کر برآمد کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ زر ِ مبادلہ حاصل کیا جا سکے زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار صنعتیں دیتی ہیں۔ ہاؤسنگ کا شعبہ بھی ترقی کر رہا ہے اور بینکس مطمئن ہیں کہ ریکوری ہوجائے گی۔ ہماری مارک ایپ کی شرح 12 سے 14 فیصد تھی جو لوگوں کے لیے مناسب نہیں تھی عمران خان نے اس پر چھوٹ دے کر لوگوں کی پہنچ تک اسے لے کر آئے ہیں، امید ہے یہ شرح مزید نیچے جائے گی اور مڈل کلاس کو بھی گھر مل سکیں گے۔ ہمیں سرکاری ملازمتوں کو بہتری کرنے کی ضرورت ہے جو ملازمین زیادہ کام کرتے ہیں اور جو کم کرتے ہیں ان میں فرق ہونا چاہیے، بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

حکومتی نظام کو 60 کے دہائی جیسا بنانا ہے، اس نظام میں بہت سیاسی مداخلت ہوگئی ہے ٹھیک کرنے کے لیے 5 سے 7 سال لگیں گے اور اس کے بعد تنخواہوں کے مسئلے حل ہوجائیں گے جب تک زرعی پیداوار نہیں بڑھے گی خوراک کے معاملے خود کفیل نہیں ہوں گے اس وقت تک بین الاقوامی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے متاثر رہیں گے۔ آڑھتیوں کی منافع خوری کو روکنے کے لئے کولڈ اسٹوریج قائم کرنے کے ساتھ ایسا نظام قائم کرنا ہوگا جس میں کاشتکار کا استحصال نہ ہو اور وہ مڈل مین کے بجائے براہِ راست ہول سیل مارکیٹوں میں زرعی اجناس فروخت کرے۔ ، ہم ڈیجیٹائزیشن کر کے ٹیکس بیس کو وسیع کریں گے، یہ اگلے سال جون تک کا منصوبہ ہے۔ 6 کھرب روپے اکٹھا کرنے کے لیے پیٹرولیم لیوی نہیں بڑھائیں گے ہم انتظار کریں گے، ایران سے پابندی ہٹنے کی صورت میں وہ تیل کی پیداوار بڑھا دیں گے، ساتھ ہی سعودی عرب کے ساتھ تاخیر کی ادائیگیوں کے حوالے سے بات چیت ہوگئی ہے لہٰذا پیٹرولیم کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ آج 4700 ٹیکس بیس ہے اور شرح نمو 5 فیصد ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس ریونیو ٹارگٹ میں زیادہ رسک نہیں ہے اور کہیں کمزوری آئی بھی تو ہم منی بجٹ نہیں لائیں گے۔سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام ڈیڑھ کروڑ خاندانوں کا احاطہ کرے گا لیکن ٹرکل ڈاؤن گروتھ میں ایک سے دو سال کے عرصے میں جب نوکریاں بڑھیں گی تو مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی صورتحال بہتر ہونا شروع ہوجائے گی۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کی تعداد بڑھا کر 10 ہزار کرنا چاہتے ہیں اور اسے کمپیوٹرائزڈ کیاجائے گا جس کے تحت ہر خاندان کو ایک کوٹا دے دیا جائے گا تا کہ لوئر مڈل اور مڈل کلاس کو تحفظ دیا جائے۔ ٹریک اینڈ ٹریس کے ذریعے غیر قانونی طور پر سگریٹ بنانے والوں کو پکڑا جائے گا۔ پنشن بہت بڑا مسئلہ ہے، ہم اصلاحات کر رہے ہیں اگلے 6 ماہ میں آپ کو بڑی تبدیلی نظرآئے گی، کیوں کہ یہ ہماری، صوبوں اور فوج کیلئے برداشت سے باہر ہوگئی ہے بجلی بنانے کی صلاحیت بہت زیادہ بڑھ گئی جس کی ادائیگیاں 2023 میں 18 کھرب روپے سالانہ تک پہنچ جائے گی اور یہ وہ بجلی ہے جو ہم استعمال نہیں کرتے۔ جو پاور پلانٹس بن گئے ہیں انہیں ختم نہیں کیا جاسکتا آئی ایم ایف کہتا ہے ٹیرف لگادو لیکن اگر ایسا کیا تو سب بند ہوجائے گاجس کے لئے ہماری شرح نمو اتنی ہونی چاہیے کہ اس بجلی کو استعمال کرسکے تا کہ ہم گنجائش کی ادائیگیاں نہ کریں بلکہ وہ بجلی فروخت کر کے اپنے قرضے اتاریں اور پاور سیکٹر کو فعال بنائیں۔

صحت اور تعلیم پر ہمارا بجٹ بہت کم ہے اس کے حوالے سے آئی ایم ایف سے رعایت بھی لینی پڑی تو لیں گے بہرحال اس ساری صورت ِ حال پربلاول بھٹو زرداری نے کمال تبصرہ کیاہے کہ ہ غربت، بیروزگاری اور مہنگائی تاریخی ہے تو بجٹ کیسے عوامی ہو سکتا ہے سال بدل گیا لیکن عوام کے حالات نہیں بدلے وزیراعظم عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں بجٹ سے عمران خان نے اپنا عوام دشمن ایجنڈا واضح کر دیا ہے جب پی ٹی آئی اپنا عوام دشمن بجٹ پیش کررہی تھی تو پارلیمان کے باہر سرکاری ملازمین مہنگائی کی دہائیاں دے رہے تھے، مگر غریب کے گھر کا چولہا آج تک بجھا ہوا ہے۔ عوام جان چکے ہیں کہ بڑی بڑی باتیں کرنا عمران خان کی عادت ہے، پیپلزپارٹی عمران خان کو عوام کے معاشی قتل عام کی اجازت نہیں دیگی حکمرانوں اور اپوزیشن ک یان باتوںسے عوام کا کیا لینا دینا یہ ساری وعدے اور دعوے تواپنی جگہ پر ہیں لیکن حالات بتاتے ہیں حکومتی دعو ے تو کبھی پورے نہیں ہوتے تحریک ِ انصاف نے اقتدارمیں آنے سے قبل ا علان کیا تھا کہ وہ کوئی منی بجٹ نہیں لائے گی لیکن پہلے ہی سال ملکی تاریخ میں3 منی بجٹ لائے گئے جس نے عوام کا حلیہ بگاڑکررکھ دیا اللہ کرے اس سال کوئی منی بجٹ نہ آئے تو عام آدمی کو کچھ نہ کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔

Ilyas Mohmmad Hussain

Ilyas Mohmmad Hussain

تحریر : الیاس محمد حسین