قصوروار ہم خود ہیں

Unemployed

Unemployed

تحریر : عاصم ارشاد چوہدری

وہ ہانپتے ہوئے کیفے ٹیریا میں داخل ہوا آتے ہی اس نے “سوری آئی ایم لیٹ” کا فقرہ بولا اور میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا میں جو پچھلے آدھے گھنٹے سے اسکا انتظار کر رہا تھا میں نے غور سے اسکے چہرے کی طرف دیکھا اور پانی کا گلاس اسکی طرف بڑھا دیا جسے اس نے ایک ہی سانس میں ختم کیا اور قدرے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔

یہ ایک سرکاری ملازم تھے اور میرے بہت اچھے دوست بھی وہ ایک چیریٹی گروپ بنانا چاہتے تھے تو اس بارے میں مجھ سے ملنے آئے تھے، انکا کہنا تھا کہ حکومت اس کام کی طرف توجہ نہیں دیتی حکومت ناکام ہو چکی ہے یہ صرف اپنے وزیروں مشیروں کو نواز رہی ہے ہم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ نہیں کیا عوام کا خون چوس لیا گیا ہے ہم بائیس کروڑ عوام ذلیل ہو کر رہ گئی ہے کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی افراد بے روزگار ہوئے ہیں حکومت انکا نہیں سوچتی اسی لئے ہم کچھ دوستوں نے چیرٹی گروپ بنا کر اپنی کمیونٹی میں اس کام کو شروع کر کے ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس ذرائع اور ٹیم نہیں ہے، اس بات پر بھی انہوں نے ایک بار پھر حکومت کو برے القابات سے نوازا،میں نے ٹیبل سے ٹشو اٹھا کر منہ پر پھیرا اور اس سے چند سوالات کی اجازت چاہی جس کی انہوں نے بخوشی اجازت دی۔۔

میرا ان سے پہلا سوال تھا کہ کرونا لاک ڈاؤن میں حکومت نے آپکو گھر بیٹھا کر تنخواہیں دیں۔۔۔۔۔۔۔

میں نے ان سے دوسرا سوال کیا آپ اپنی ملازمت میں خیانت نہیں کرتے کیا آپ اپنا کام بالکل ٹھیک کرتے ہیں کیا آپ وقت سے پہلے دفتر سے نہیں نکلتے کیا آپ کسی شخص کا کام کر کے کمیشن نہیں لیتے۔۔۔۔۔ میرے اس سوال پر میرے دوست کے چہرے پر پسینہ آگیا انہوں نے ایک بار پھر پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگایا اور نظریں جھکا لیں۔۔۔

میں نے تیسرا اور آخری سوال کیا کہ کیا آپ میں مینجمنٹ کوالٹی اور وقت کی پابندی ہے ہے جو آپ ایک چیریٹی گروپ چلا سکتے ہیں۔۔۔ اس سوال پر بھی وہ جھنجھلا کر رہ گئے اور غصہ سے میری طرف دیکھنے لگے۔

میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے کبھی خود کو ٹھیک کیا ہے آپ نے کبھی حکومت پاکستان کا ساتھ دینے کی کوشش کی ہے۔۔۔ کیا آپ نے کبھی زمہ دار شہری کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں، میرے دوست نے ادھر ادھر جھانکنا شروع کر دیا۔

میں نے اپنی بات پھر جاری رکھی کہ ہم بذات خود غلط ہیں ہم ستر سالوں میں ایک قوم تو بن نہیں سکے ہم خاک ترقی کریں گے، ہم ہر حکومت پر تنقید کرنے اور حکومت کو برا کہنے میں پیش پیش ہوتے ہیں لیکن کبھی ہماری عوام نے خود کے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھا کہ کیا ہم کبھی قوم بنیں ہیں؟

کسی بھی معاشرے یا ملک کی کامیابی اور ترقی کا راز اسکی قوم اور اس ملک میں رہنے والے باشندوں پر منحصر ہوتا ھے کہ وہ کس طرح اپنے ملک کو آگے لے کر جانا چاھتے ھیں لیکن وطن عزیز پاکستان میں اس بات سے بالکل اتفاق نھیں کیا جاسکتا کیونکہ پاکستانی عوام کسی بھی طرح ترقی کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے کیسے ؟
آئیں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔

ہم چاھتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کی منازل طے کرے اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں جگہ بناۓ مگر افسوس کہ ہم خود ترقی یافتہ قوموں کی طرح قانون پر عملدرآمد نھیں کرتے۔۔ ہم ستر سالوں میں خود کسی بھی جگہ ایک قطار بنا کر کھڑے نہیں ہو سکتے مثال کے طور پر کسی بھی بینک کے سامنے قطار میں کھڑے ہونا پڑ جاے تو ہم قانون توڑ دیتے ھیں۔۔ہسپتال میں اپنے نمبر پر ڈاکٹر کے پاس جانیکی بجاۓ ہم تعلق تلاش کر تے ہیں اور قانون شکنی کرتے ہیں خود رشوت دے کر بعد میں کہتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ کرپشن ہے، گزشتہ مہینے ملک میں کرونا وائرس کی وجہ سے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن تھا مارکیٹیں بند تھیں لیکن تاجر حضرات دوکانوں کے شٹڑ اٹھا کر گاہکوں کو دکان کے اندر بھیج کر سامان بیچ رھے تھے، کسی بھی جگہ پر تعلق اور رشتےداروں کو پہلے نوازنا بھی ہمارے معاشرے کا تاریک پہلو ہے۔بحثیت قوم جب تک ھم خود کو قانون کے تابع نہیں کریں گے تب تک ہم ترقی کا خواب ہی دیکھیں گے عمل نہیں دیکھیں گے، میرے عزیز ہم وطنو ! اگر آپ چاھتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو تو پہلے خود کو تبدیل کریں۔

پھر اس کے بعد ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسلئہ وقت کی پابندی نا کرنا ہے آپ کسی جگہ چلیں جائیں آپ کو یہی مسئلہ نظر آئے گا آپ نے سفر کرنا ہو تو بس لیٹ ہو جاتی ہے، آپ نے کہیں شادی پر جانا ہو تو پھر کم از کم 5 گھنٹے کا وقت نکالیں کیونکہ کارڈ کے اوپر لکھے وقت پر کبھی کوئی کام نہیں ہوا، آپ سے کسی نے ملنے آنا ہو تو وہ بھی کبھی وقت پر نہیں پہنچے گا وہ آتے ہی ہلکا سا منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی کا لفظ “سوری” کہے گا اور کمال ڈھیٹ پن سے سامنے کرسی پر ڈھیر ہو جائے گا۔

قائداعظم محمد علی جناح کی سب سے بڑی خوبی جس نے انہیں کامیاب کیا وہ وقت کی پابندی تھی۔ اس بارے میں قائداعظم کے کئی واقعات بہت مشہور ہیں۔ سب سے دلچسپ اور انوکھا واقعہ اس وقت پیش آیا جب پاکستان بننے کے بعد سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا گیا۔قائداعظم اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ وہ ٹھیک وقت پر تشریف لائے لیکن کئی وزراء اور سرکاری افسران اس تقریب میں نہیں پہنچے تھے، جن میں وزیر اعظم لیاقت علی خان بھی شامل تھے۔
اگلی قطار کی کرسیاں جو افسران اور وزراء کرام کے لیے مخصوص تھیں، خالی پڑی تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر قائداعظم غصے میں آگئے اور حکم کیا کہ پنڈال سے تمام خالی کرسیاں اٹھا دی جائیں تا کہ جو حضرات بعد میں آئیں، انہیں کھڑا رہنا پڑے۔ اس طرح انہیں احساس ہو گا کہ پابندی وقت کتنا ضروری ہے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ پروگرام شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی جناب وزیر اعظم لیاقت علی خان تشریف لائے تو ان کے ساتھ چند وزرا ء بھی تھے۔

پنڈال میں موجود کسی شخص کو جرأت نہ ہوئی کہ ان کے لیے کرسی لائے یا پنی نشست پر انہیں بٹھائے۔ تقریب کے دوران لیاقت علی خان اور ان کے ساتھ آنے والے وزرا کھڑے رہے۔ ان کا مارے شرمندگی برا حال تھا۔ اس واقعہ کے بعد کسی اعلیٰ افسر کو جرأت نہ ہوئی کی تقریب میں دیر سے آئے۔

آپ دنیا کے کامیاب ترین لوگوں کی فہرست دیکھیں ان سب میں ایک بات مشترک تھی وہ سب وقت کے پابند تھے،
لیکن ہماری عوام کے پاس اتنا فالتو وقت ہے کہ یہ سارا سارا دن ٹیلیویژن پر ڈرامے دیکھتے صرف کر دیتے ہیں، ہماری عوام کے پاس اتنا فضول وقت ہے کہ ہم گلی میں گاڑی کو موڑ کٹواتے ہوئے پانچ لوگ کھڑے ہو کر مشورے دینا شروع کر دیتے ہیں۔

ہم سارا دن گھر میں پڑے رہنے کے بعد شام کو کسی نائی کی دکان پر بیٹھ کر قومی معیشت پر بات کر رہے ہوتے ہیں، چائنہ نے کیسے ترقی کی انکی باتیں بڑی دلچسپ ہیں انکی قوم بہت محنتی ہے چائنہ ہم سے دو سال بعد 1949 میں آزاد ہوا لیکن آج چائنہ کو دیکھ لیں اور خود کو دیکھ لیں وجہ انکی قوم اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہے وہ لوگ محنتی ہیں وہ لوگ اپنے لاکھوں کے فائدے کے لئے اپنے ملک کا ایک روپے کا نقصان نہیں کرتے،
چینی قوم کی صلاحیتوں پر نظر ڈالی جائے تو ہم میں اور ان میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ افسوس بھی ہوتا ہے ہم اتنے اچھے پڑوسی ملک سے کچھ کام کی باتیں کیوں سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے ایک زندہ اور محنتی قوم ہونے کے ناتے چینی عوام چھٹیوں کو سارا دن گھر میں ٹی وی کے آگے بیٹھ کر یا سو کر نہیں گنواتی۔ وہ فالتو اوقات ضائع کرنے کے بجائے ملک کی خدمت کو ترجیح دیتے ہیں۔ شہری ان اوقات میں کوئی فلاحی کام مثلاً پودے لگانا یا ساحل سمندر کے کنارے رضا کارانہ صفائی کا کام انجام دیتے ہیں۔

چینی قوم بڑی باصلاحیت محنتی اور سادہ قوم ہیں، ہزاروں سال قبل جب مغربی قومیں بربریت اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں اس وقت فرزندان چین نے مل جل کر بامقصد زندگی بسر کرنا اور بامقصد چیزیں بنانا سیکھ لی تھیں، لیکن ہم پاکستانی قوم کو اگر کوئی شخص یہ سمجھانا چاہے کہ ہم خود غلط ہیں ہم خود محنتی، وقت کے پابند اور ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہیں تو پھر لوگ آپ کو گالیاں بھی دیں گے اور مولانا طارق جمیل صاحب کی طرح آپ سے پہلی فرصت میں معافی بھی منگوائیں گے۔۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم خود ہم غلط ہیں ہم خود ہر کام کے قصوروار ہیں ہم خود کو نہیں بدلتے ہم خود کامیاب نہیں ہونا چاہتے۔

میرے دوست نے اپنی کافی ختم کر لی تھی وہ مزے سے ماحول کو انجوائے کر رہے تھے میری بات ختم ہوئی انہوں نے زور سے قہقہہ لگایا اور سگریٹ کا بڑا سا کش کھینچ کر کہنے لگے ایک انسان کے بدلنے سے کیا ہو گا۔۔۔

میں نے کافی کا آخری سپ لیا اور سلام کرتے ہوئے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے قدرے سنجیدگی سے کہا “میرے بدلنے سے فرق پڑے گا”،

Aasim Irshad Chaudhary

Aasim Irshad Chaudhary

تحریر : عاصم ارشاد چوہدری