سرکاری ہسپتالوں کا ناقص ٹوکن سسٹم !

Token System

Token System

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا

پنجاب کے ضلعی ہیڈ کواٹرز ہسپتالوں میں جہلم ضلع جہلم کا سب سے بڑا اور معروف ڈسٹرکٹ ہسپتال جہلم ایک ایسا ہسپتال ہے بھی ایک ایسا ہسپتال ہے جہاں مریض دور دراز تقریباً سو سو کلومیٹر زکا سفر طے کر کے پہنچتے ہیں۔ پنجاب بھر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرز ہسپتالوں میں کمپیوٹر ٹوکن سسٹم متعارف کروانے کا مقصد ہر خاص و عام کو بلا روک ٹوک اپنی باری پر چیک اپ کروانے کی سہولت مہیا کرنا ہے۔ افسوس سول ہسپتال جہلم سمیت پورے پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں کا کمپیوٹر ٹوکن سسٹم نے سفارشی چیک اپ کوروکنے کی بجائے مریضوں اور لواحقین کے لئے دردِ سر بنا ہوا ہے۔

دنیا بھر کی طرح مریضوں کی انٹری کے لئے کم از کم درجن بھر کاؤنٹر ز مریضوں کی رجسٹریشن کے لئے بنانے کی ضرورت ہے مگر افسوس جہلم ایسے کاؤنٹر صرف تین جگہوں پر مہیا کئے گئے ہیںٹوکن سسٹم میں عمر اور جنس کے ساتھ اگر مریض کی تکالیفات کو مدد نظر رکھتے ہوئے کمپیوٹر ٹوکن سسٹم سے ٹوکن کا اجرا ہوتا تو مریضوں کا قیمتی وقت کا ضیاع نہ ہوتا۔ لواحقین تیمارداری کرتے کرتے خود مریض نہ بنتے۔ کیونکہ جہلم سول ہسپتال سے کمپیوٹر ٹوکن حاصل کرنے کے بعد ایک کاؤنٹر ڈاکٹرز روم کے سامنے بنایا گیا جہاں مریض کی تفصیل پوچھ کر مریض کو ” جنرل پریکٹیشرز کے کمرے میں بھیجا جاتا ہے اور اس کاؤنٹر پر چار آدمی ( دو خواتین + دو مرد ) ہوتے ہیں اور عورتوں مردوں کی فضول لائینیںہیں ، حالانکہ سرے سے اس کاؤنٹر کی ضرورت ہی نہیں ۔ رجسٹرین کاؤنٹر والے سے ہی یہی کام لیا جائے تو وقت اور عملہ کی بچت کے ساتھ مریض اورلواحقین کی سردردی بھی ختم ہو جائے۔

دوسری بات جنرل پریکٹیشنر چیک اپ کے بعد اگر مریض کو سپیشلسٹ کے پاس کنسلٹینٹ کے لئے ریفیرکرتا ہے تو جنرل پیکٹیشنر اپنے کمپیوٹر سے مریض کی فائل متعلقہ ڈاکٹرکے پاس بزریعہ سسٹم بھیجتا ہے اور زبانی مریض کو کہا جاتا ہے کہ آپ فلاں سپیشلسٹ ڈاکٹر کے کمرے میں جائیں ۔یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ مریض جب اپنے متعلقہ ڈاکٹر کے پاس پہنچتا ہے تو باہر کھڑا سرونٹ بوائے مریض کو اندر جانے کی بجائے ایک دوسرے ڈیسک پر بھیجتا ہے اور کہا ہے وہاں سے کمپیوٹر میں انٹری کروا کر آؤں ۔مریض جب کمپیوٹر ڈیسک پر پہنچتا ہے تو پھر لائین میں لگ جاتا ہے اور مریض کے اس وقت پسنے چھوٹ جاتے ہے جب جواب ملتا ہے آج جتنے چیک آپ ہونے تھے وہ تعداد پوری ہوگئی ہے لہذا آپ کل آئیں ( اگر کیس سرجری کا ہو تو تیسرے دن آنے کا کہا جاتا ہے کیونکہ ایک دن سرجنز کا چیک اپ اور دوسرادن اپریشن کا ہوتا ہے ) مریض کے ساتھ دھوکہ مریض / مریضہ دوسرے یا تیسرے دن پہنچتے ہیں تو کہا جاتا ہے کمپیوٹر ٹوکن حاصل کریں گھنٹہ ڈیڈھ بعد ٹوکن حاصل کرنے کے بعد پھر اس کاؤنٹر پر رابطہ جس کاؤنٹر کی ضرورت ہی نہیں ۔ اس کے بعد پھر میڈیکل آفیسر سے ریفیئر ہو کر سپیشلسٹ سے کنسلٹنٹ کے لئے پھر دوسرے غیر ضروری کاؤنٹر کا طواف۔ اللہ اللہ کر کے مریض نے ” سپیشلسٹ ” کا درشن کرنے کی سعادت حاصل کر لی۔ ڈاکٹر صاحب نے دو تین اپشن استعمال کرنے ہیں مثلاً مریض دیکھا ادویات لکھی اور سسٹم سے مریض کا ڈیٹا ” فارمیسی ” بھیج دیا۔ دوسرا اپشن بلڈ ٹیسٹ یا ایکسرے وغیرہ ۔ سپیشلسٹ ڈاکٹرز صاحبان بھی مریض کا ڈیٹا سسٹم سے لیب یا ایکسرے وغیرہ کو بھیج دیتے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر ڈیٹا سسٹم سے اپ ڈیٹ ہو رہا ہے تو پھر غیر ضروری کاؤنٹر غیر ضروری عملہ مریض اور لواحقین کی داد رسی کی بجائے اذیت کا سبب کیوں ہے ایک اور بات جب مریض تھک ہار کر سب مراحل طے کر لیتا ہے تو ادویات کی وصولی کے لئے لائن جیسے رمضان بازار میں چینی لینے والوں کی ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ ادویات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں اور کچھ بچارے کھڑے کھڑے تھک کر یہ کہ کر واپس لوٹ جاتے ہیں ” سب کو پیناڈول اور بروفن ” ہی دیتے ہیں ٹوکن سسٹم کو صحیح اور بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے ضروری ہے غیر ضروری ڈیسک ختم کر کے ” ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرزہسپتالوں ” میں کمپیوٹر رجسٹریشن کے کم از کم دس جبکہ تحصیل ہیڈ کواٹرز ہسپتالوں میں کم از کم ” پانچ رجسٹریشن ڈیسک ” مہیا کئے جائیں ۔تاکہ مریض جہاں سے بہتر اور آسانی سمجھے ٹوکن حاصل کر لے اور سب ٹوکنوں کا سیریل نمبر ایک سا ہو جو پہلے رجسٹرڈ ہو اسکا نمبر پہلے جو بعد میں رجسٹرڈ ہو اس کا نمبر بعد کا جاری ہو خواہ رجسٹریشن کاؤنٹر کوئی بھی ہو۔

ایک یادو کمروں میں ” میڈیکل آفیسرز ”درجن بھر بیٹھا دیئے جائیں ۔ وہ مریض کنسلٹ کر کے ادویات کے لئے ” سسٹم کے ذرئیے مریض کا ڈیٹا فارمیسی ” میں بھیج دیں یا ماہر ڈاکٹر ز کی خدمات کے لئے مریض کو ریفیئرکریںاور مریض کو بتا دیا جائے کہ آپ ادویات حاصل کریں یا فلاں سپیشلسٹ کے پاس جائیں یا پھر آپ کا بلڈ یورنگ ٹیسٹ وغیرہ کے لئے لیب جائیں۔اس کے بعد مریض یا لواحقین / تیمارداروں کو کسی غیر ضروری ڈیسک کے چکر نہ لگوائیں جائیں بلکہ یہ جو پیرا میڈیکل اسٹاف کا عملہ ہے ان سب کو فارمیسی میں لگا دیا جائے جیسے ہی کسی مریض کا ڈیٹا پہنچے یہ ادویات تیار کر کے رکھ دیں تا کہ ادھر مریض پہنچے فارمیسی سے پکارا جائے فلاں مریض ادویات وصول کر لیں۔
ہو سکتا ہے فوری طور پر یہ مشکل لگ رہا ہو مگر یہ ناممکن بھی نہیں اور بہت فائدے مند ہے۔

DR Tasawar Hussain Mirza

DR Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا