بھان وتی کنبہ 2

Opposition

Opposition

تحریر : شاہ بانو میر

حکومتی معاملات کس نہج پر ہیں
یہ عام ہم جیسے لوگ کبھی بھی نہیں جان سکتے
ہمارا حال تو بالکل
اسی حدیث جیسا ہے
کہ
اگر تمہیں آپس کی اصلیت معلوم ہو جائے
تو
ایک دوسرے کے جنازے میں بھی شرکت نہ کرو
ہمیں بھی یونہی سچ
اور
اصل کریہہ مسائل سے دور رکھا جاتا ہے
کہ
کہیں ہم پرانکی اصلیت آشکاراہ ہو گئی تو
ہم انکی شکل دیکھنے کے روادار نہ ہوں گے
عرصہ سے ایک پارٹی کی طرز حکمرانی فرعونی
اور
زبان کے تند و تیز جملے سیاسی مار مارتے ہیں
بد نصیبی اس ملک کی یہ تھی
ضرورت تھی نئے سیاسی اتحاد کی
اگر تو مقصد ملک بچانا ہوتا تو
اتنا وقت نہ لگتا
بہت وقت لگا اکٹھے ہونے میں ٌ
کیونکہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سب ساتھ ملے
ان مہینوں چلنے والی دعوتوں میں طعام دہن کے سوا
اور کچھ نہیں تھا
ایک بات ضرور ہوتی ے
کہ
ایک حکمران جو بیٹھا ہے آخر ہمارے ہلانے سے ہل کیوں نہیں رہا ؟
اسکو کھسکانا کیسے ہے؟
سارا زور ملک کیلئے کسی بہتر منصوبہ سازی پر نہیں لگاتے
بلکہ
اس ملک کو پہیہ جام کیسے کریں اسی پر وقت لگتا ہے ان سب کا؟
یہ ظالم ہر دور میں ایک جیسے ہی ہیں
کیونکہ
انکے گھروں میں دانے ہیں
اس لئے تو سیانے ہیں
یہ سیانے پھر اکٹھے ہوئے
کسی کے ہاتھ میں مخالفت کا بٹہ تھا
تو دوسرے کے ہاتھ میں انتشار کی اینٹ
بے شمار
لوگ اکٹھے ہوئے یوں اینٹ روڑے سب ایک ساتھ رکھے
ہمیشہ کی طرح اینٹ روڑے جڑے تو بھان وتی کا کنبہ بن گیا
لیکن کچھ کرنے قاصر
قدرت نے موقعہ یوں دیا کہ
مہنگائی پانامہ کی طرح نمودار ہوئی
اور
اس نحیف کنبے کو جلسوں کا بہانہ مل گیا
کسی کو عوام کی بڑہتی ہوئی مشکلات کا نہ دھیان ہے
نہ حل کی طرف کسی کے جانے کا کوئی خیال ہے
ووٹ کو عزت دیتے دیتے
ریاستی اداروں کو دھڑام سے گرانے کے بیانیے سے
کیا ووٹ کو عزت بغیر ووٹر کے ملے گا؟
دوسری طرف
حکومت کسی طور ڈھلنے کو تیار نہیں
اکڑ دھونس کا رویہ آج اپوزیشن کو سامنے لانے کا باعث بنا
پی ڈی ایم طویل مشاورت کے بعد
ملک کی اکثریتی جماعتوں کا اتحاد
لیکن
اتحاد کیلیے ایک نقطہ
جس پر سب کو اکٹھا ہو جانا چاہیے تھا
پاکستان ہونا چاہیے تھا
پاکستان میں تین جلسے ہوئے
گوجرانوالہ کراچی کوئٹہ کے زبردست جلسوں نے
واقعی نیم مردہ ملک میں نئی روح پھونک دی
دو کی تقسیم اس ملک کو لے ڈوبی
سڑکوں پر جہاں لش پش کرتی گاڑیاں فراٹے بھرتےدوڑتی ہیں
وہ دو اطراف کھڑے لوگوں کو نظر بھر دیکھتے بھی نہیں
یہ لوگ وہ ہیں
جن کے کپڑے سردی کے موسم میں ناکافی ہیں
کسی نے کٹےناریل ہوئے ٹرے میں سجائے ہوئے
کسی نے دال سویاں پلاسٹک کے بوسیدہ شاپرز میں ڈالے
بیزارگی ماتھے پر دیکھ کر بھی انجانی امید لگائےٌ
گاڑی کے پیچھے بھاگتا ہے
کسی کی ماں نے گھر میں انگلیوں میں سوئیاں چبھو کر
گجرے بنا کر بیٹے کو دیے
کہیں موتیے کے گجرے اور ہار لٹکے دکھائی دیتے ہیں
کہیں کنگھیاں الاسٹک ازار بند پنیں سیفٹی پنز
انبار اشیاء کا
جن کا خریدار نہیں
ابلے انڈوں کی صدا کانوں میں آتی ہے
کہیں سے مونگ پھلی گرما گرم
یہ سب تو پرانے وقتوں کے فرسودہ رواج تھے ٌ
اب آ جائیے
مہنگی دوکانوں کی طرف ریسٹورنٹس کے باہر گھنٹوں قطار میں لگے ہیں
ڈرائی فروٹ کی سجی ہوئی شاپس کی جانب لوگوں کا ہجوم ہے
بہترین عمدہ پیکنگ میں ہزاروں میں بیچنے والے صحتمند اور خوش ہیں
وجہ
شاپس کے سامنے کھڑی چمچماتی گاڑیوں کی قطاریں
جنہیں دس بیس کی چیز اپنی بے عزتی لگتی ہے ٌ
یہ ہے وہ معیار جہاں سے جوسسز ڈرائی فروٹس
کے علاوہ ڈیزائینر سوٹس امپورٹڈ شوز بھی لئے جاتے ہیں
رات گئے تک ایک طرف غریب مفلس جھڑکوں کے ساتھ
حق حلال کی کمائی کیلئے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا
ہر روز ٹھیلہ ہو یا شاپر گھر سے نکلتا ہے نئی امید کے ساتھ
ملک دہائیوں سے یونہی منقسم تھا اور ابھی تک ہے
نئے لوگ آ گئے بائیس کروڑ لوگوں کو
مرغ بسمل کی طرح آگے پیش کر دیا
دو سال کے کھیل تماشے بےعزتی کی برداشت ختم ہوئی تو
دو سال میں حکومتی نا اہلی کا اتنا مواد اکٹھا ہو چکا تھا
جو عوامی جزبات کو بھڑکا کر اب اپوزیشن کا ساتھ دے سکتا تھا
اور
حکومت تبدیل نہ بھی کر سکتے لیکن سر درد ضرور لگا سکتے تھے
پی ڈی ایم
ایم آر ڈی کے بعد
یہ نیا نام ملک بچاو تحریک کے حوالے سے
انتہائی طویل مشاورت کے بعد جاری کیا گیا
پی ڈی ایم میں شامل لوگ بھول گئے
اس ملک کی عوام نے بھوک کاٹی بجلی کے بغیر گزارہ کیا
لیکن
ایمان اور اور ملک سے وفاداری انکی زندگی کا حصہ ہے ٌ
یہ کب کس ملک میں ہوا
ملک کے حساس ادارے کے سربراہوں کے نام
کیوں؟
یاد رکھیں
بھوکے پیٹ والےسے جلسوں میں چار چاند لگ جاتے ہیں
یہی سڑک پر خوانچہ لگانے والا بے بس غریب جب نکلتا ہے تو
حکومت کی نیندیں حرام کر دیتا ہے
پی ڈی ایم کے پاور گروپ اور اسکے پاور شوز
ان لوگوں سے ہی معرض وجود میں آتے ہیں
مگر
یہ نشہ ہرن ہو جائے گا
کامیابی مٹھی سے ریت کی طرح پھسل جائے گی
اگر
ریاستی ادراوں کے خلاف
ایسی گھن گرج جاری رہی تو
یاد رکھیں
وہ وقت دور نہیں
جب ایک بار پھر سب الگ ہو جائیں گے
اور
ہر جماعت اپنے ڈرائینگ رومز میں بیٹھ کر
نواز کے بیانیے کو کوس رہی ہو گی
جس کی وجہ سے بھان وتی کا کنبہ ریزہ ریزہ ہو گیا
ایک ایسا انسان جو ملک کے ذمہ دار عہدوں پر رہا ہو
لیکن
لہجے کی کرختگی اور پے درپے الزامات لگا رہا ہے
مگر
ان کے خلاف ثبوت کہاں ہیں؟
پاکستانی عوام آدھے بھرے گلاس کو
اوپر سے خالی ہے ایسا نہیں کہیں گے
بلکہ
گلاس آدھا خالی ہی
سب کہیں گے
اکٹھے رہنا ہو تو
محدود نقاط پر ہی متفق ہو کر رہا جا سکتا ہےٌٌ
بات بڑہا لی ہے تو اب معاملہ
ثبوت دیے بغیر نہیں ٹلے گی
ایک بھان ِوتی کا کنبہ پہلے ہم حکومت کو کہتے تھے
لیکن
یہ اپوزیشن کی بھان وتی کا کنبہ
ایک انسان کے کچھ حروف کی وجہ سے اپنی طاقت کھو بیٹھا ہےٌ
پیپلز پارٹی اور نواز لیگ ہی بڑی جماعتیں تھیں
نواز شریف نے اپنا بدلہ تو لے لیا
بیانیہ تو نواز شریف نے دے دیا
لیکن
انکی اپنی جماعت کو یہ بیانیہ قابل قبول نہیں
ملک پہلے ہی نو آزمودہ ناتجربہ کار قیادت کے ہاتھوں ٌ
ہر روز نئے بحران کا شکار ہو رہا ہےٌٌ
ایسے میں
بمشکل اپوزیشن کو مہنگائی کا بہانہ ہاتھ آیا
یوں جلوس نکلے اور عوام نے بھی لبیک کہتے ہوئے
حبس زدہ فضا سے باہر نکلے
مگر
اپوزیشن کہنے کو تو اکٹھی ہو گئی
مگر
اینٹ روڑے اکٹھے جم کر ساتھ کھڑے نہ ہوئے کوئی ادہر گرا کوئی ادہر گرا
یوں یہ بھی
کنبہ بھان وتی کا ہی نکلا
جس کی اینٹ اور ہر روڑہ نظریہ ضرورت کے تحت جوڑا گیا تھا
سب تتر بترکیوں؟
نواز شریف نجانے کس کی شہہ پر ایسا بیان دے بیٹھے
کہ
پی ڈی ایم کا مخدوش مستقبل سامنے ہے
اپنی جماعت سمیت پی ڈی ایم مکمل انکاری ہے
ابھی تو اپنی پارٹی ہی اصرار کر رہی ہے
مزید جلسوں میں نواز شریف کی تقریر نہیں ہونی چاہیے
حکومت اور اپوزیشن
دونوں کے کنبے بھان وتی کے ہیں
دیکھنا یہ ہے
کہ
جہانگیر ترین کس کے اشارے پر اطمینان سے وطن واپس آ گئے
لیکن
حکومت کی بھان وتی
جہاز کی واپسی سے زیادہ طاقتور ہو گئی

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر