حکومتی کوشش اور پولیس کا قبلہ

Police

Police

تحریر : روہیل اکبر

انعام غنی اس وقت پنجاب پولیس کے 50ویں آئی جی ہیں قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے پہلے انسپکٹر جنرل پولیس خان قربان علی خان سے لیکر اب تک پولیس کا قبلہ درست نہ ہوسکا بلکہ جوں جوں وقت گذرتا گیایہ محکمہ بد سے بدتر ہوتا چلا گیا پولیس میں بہتری کی امید اور آس لیکر آنے والے بھی اسی رنگ میں ڈھل گئے گذشتہ روز چوہدری پرویز الہی نے اسمبلی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پاکپتن سے رکن اسمبلی احمد شاہ کھگہ کے ساتھ پیش آنے والی ڈکیتی کے بعد کہا کہ میں نے اپنی چالیس سالہ سیاسی زندگی میں چوریوں،ڈکیتیوں اور راہزنیوں کے اتنے واقعات نہیں دیکھے جتنے اب شروع ہو چکے ہیں۔

چوہدری صاحب کا اپنی حکومت کے خلاف یہ اعتراف جرم تھاحقیقت تھی یا کوئی اور اشارہ تھا وہ ہی بہتر جانتے ہیں چوہدری صاحب اس وقت اپنی جماعت کی 10سیٹوں کے ساتھ سپیکر شپ کا مزہ لے رہے ہیں اور سات ہی ساتھ وزارت اعلی کا خواب بھی دیکھ رہے ہیں اسی لیے وہ اکثراوقات وزیر اعظم کے احکامات کو بھی کچھ نہیں سمجھتے اپوزیشن کے ساتھ پینگیں پروان چڑھانے میں مصروف نظر آتے ہیں حمزہ شہباز کے پروڈکشن آرڈر اس لیے جاری کردیے جاتے ہیں کہ انکی سیاست کا تسلسل نہ ٹوٹے اور تو اور ابھی نئی اسمبلی کی عمارت مکمل نہیں ہوئی اور چوہدری صاحب نے اپنے ووٹ پکے کرنے کے لیے تقریبا400سے زائد افراد کو بھرتی کرلیا جو سارا دن اسمبلی کی بالکونیوں میں بیٹھے موبائل پر گیمیں کھیل رہے ہوتے ہیں جنکے پاس کرنے کوکوئی کام نہیں مفت میں تنخواہیں کھا رہے ہیں جو ہال اسوقت اسمبلی کا بنا ہوا ہے وہی ہماری پنجاب پولیس کا جہاں ایک بھی کام کرنے والا مشکل سے ملے گا سب کے سب اپنی اپنی پوسٹوں کے لیے کسی نہ کسی کے پیچھے لگے ہوئے نظر آئیں گے سفارش پر بھرتی ہونے والے،سفارش پر ترقیاں لینے والے اور پھر سفارش پر ہی تعیناتیاں لینے والے پولیس کے یہ جوان چوہدری برادران اور میاں برادران کے دور میں ہی پولیس میں آئے ہیں کون سا ایسا دور تھا جس میں چرس،افیون،شراب،آئس،کوک اور بے شمار نشے سرعام نہیں بکتے رہے اور اب بھی ویسے ہی بک رہے ہیں۔

دنیا بدل گئی وارداتیں ٹریس کرنا اب کوئی مشکل کام نہیں رہا ایسا یسا جدید نظام آچکا ہے اب کسی چور اور ڈاکو کا چھپنا ممکن ہی نہیں رہا انہیں ڈھونڈنا دنوں کی نہیں بلکہ گھنٹوں کی بھی اب بات نہیں صرف چند منٹوں میں واردات کرنے والے منظر عام پر آسکتے ہیں اس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے پولیس کو اپنی دیہاڑیوں سے فرصت ملے تب کوئی کام کرے جو ہمارے ملک میں کام کرنے والے ہیں انہیں ہمارے سیاستدان روز گھسیٹتے ہیں اگر خدا نہ خواستہ ہمارے وہ ادارے بھی ان سیاستدانوں کے کنٹرول میں آگئے تو پھر ہم دنیا کی سازشوں کا مقابلہ کیسے کرینگے اپنے دشمن کی پلاننگ کو سمجھ کر اسکے دانت کھٹے کیسے کرینگے اور جو سازشیں اپنے ہی اپنوں کے خلاف تیار کررہے ہیں انہیں کیسے تلاش کرینگے۔

اس وقت ہماری ایجنسیاں آئی ایس آئی،آئی بی اور ایم آئی بہترین کام کررہی ہے اگر یہ ادارے بھی پولیس کی طرح کام کرنا شروع کردیں تو پھر ایک دن میں کئی کئی بم دھماکے کبھی نہ رکتے غداروں کی وجہ سے ملکی حالات کبھی نہ سمبھلتے اودھر تم ایدھر ہم کے نعرے لگانے والے ہر شہر میں نمودار ہوتے اور پاکستان ایک بنانا ریاست بن چکی ہوتی وہ تو خیرسے پولیس نے بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اللہ بھلا کرے ہمارے دوسرے اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد کا جنکی وجہ سے ملک میں سلامتی اور امن ہے رہی بات چوہدری پرویز الہی کی کہ جتنے برے حالات اس وقت صوبہ کے ہیں وہ ماضی میں نہیں دیکھے کیوں نہیں دیکھے اس لیے کہ قانون نے جن رسہ گیروں،بدمعاشوں اور ڈاکوؤں کو پکڑنا ہوتا تھا وہ خود یاپھر انکا کوئی سرپرست حکومت میں موجود ہوتا تھا وہی جاگیر دار،سرمایہ دار اور مال دار افراد پنجاب کے تقریبا 700سے زائد تھانوں کواپنی مرضی سے چلاتے تھے آپ پنجاب کو چھوڑیں اس وقت صرف لاہور میں 238سرٹیفائڈ قاتل، بدمعاش،قبضہ گروپ،ڈکیت،چور،رسہ گیر،منشیات فروش،ناجائز فروش اورزنا کے اڈے چلانے والے موجود ہیں جنکی لسٹ ہر تھانے کے ساتھ ساتھ اب تقریبا ہر شہری کے پاس بھی موجود ہے جی ہاں یہ شہر اقتدار ہے جہاں پولیس کا ہیڈ کوارٹر ہے پولیس زرا ہمت کرے اور 238بدنام زمانہ افراد کو اپنی گرفت میں ہی لیکر دکھا دے رہی بات پنجاب کے دوسرے شہروں کی وہاں پر پولیس اوررسہ گیر ملکر حکمرانی کرتے ہیں نوٹ بناتے ہیں پھر انہی نوٹوں سے ووٹ خریدتے ہیں تاکہ لوٹ مار کا سلسلہ یونہی چلتا رہے۔

عمران خان یا عثمان بزدار نے خود جاکر ان چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں پکڑنا پولیس نے ہی ہمت،بہادری اور جرات دکھانی ہے جس طرح اب لاہور پولیس نے بدمعاشوں کی لسٹ جاری کی اور قبضہ گروپوں سے اربوں روپے کی جگہ واپس لی امید ہے پنجاب حکومت اب پولیس کی طرف بھی توجہ دیگی جس طرح پی ٹی آئی نے ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے ہیں حکومت کی بہتر پالیسیوں کی بدولت ملک میں سیاحت کی صنعت فروغ پانا شروع ہوگئی ہے ایک طرف لاہور دنیا کے 50 خوبصورت سیاحتی مقامات میں شامل ہوچکا ہے تو دوسری طرف ہمارے شمالی علاقہ جات کے حسن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے وزیراعظم عمران خان کی کوشش ہے کہ دنیا سیروتفریح کے لیے پاکستان کا رخ کرے اسی سلسلہ میں حکومت نے سیاحوں کے لیے نئی ویزا پالیسی کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت پچاس ممالک کے سیاحوں کو آن آرائیول اور 175 کو ای ویزا سہولت فراہم کی جائے گی جسکے بعدسیاحوں اور اوورسیز کے پاکستان کیلئے ویزا کی آن لائن درخواستوں میں کئی گناہ اضافہ ہو گیا۔پاکستان آنے کے خواہشمند افراد ای ویزا کی سہولت متعارف کروائے جانے کے بعد آن لائن ویزا میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں رواں سال جنوری میں آن لائن درخواستوں کی تعداد31197 ہو گئیں پچھلے سال 14 مارچ کو وزیر اعظم عمران خان نے نئی ویزا پالیسی کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت پہلے مرحلے میں 5 ممالک کے شہریوں کو ای ویزا ملیں گے، جن میں برطانیہ، چین، ترکی، ملائیشیا اور یواے ای کے شہریوں کو سہولت میسر ہوگی جب کہ پچاس ممالک کے شہریوں کو آن ارائیول ویزا جاری کیا جائے گا حکومت ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے 66 ممالک کے لیے پاکستان کا ویزا ختم کر رہی ہے، تاکہ ان ممالک سے لوگ آئیں اور پاکستان میں منعقد ہونے والے فیسٹیولز کو انجوائے کریں اور یہ کوششیں تب تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ہماری پولیس کا قبلہ درست نہیں ہو جاتا۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر