سرخ ہو جاتی ہے جب صحن چمن کی مٹی

Soil

Soil

یہ ان دنوں کی بات ہے جب کچھ ”تنظیمیں ” کالعدم قرار دی گئیں ہمارے شہر کی ایک معروف سڑک پر ٹیلر کی شاپ پر میں ٹیلر کو کپڑے سلنے کے لیئے دے رہی تھی جب ایک شخص تیزی سے اندر آیا ۔ٹیلر کو ایک چابی تھمائی ۔ٹیلر جیسے سکتے میں تھا اس کا ہاتھ بھی وہیں کا وہیں رہ گیا مجھے بڑی حیرت ہوئی میں سمجھی کوئی بری خبر ہے یا کوئی بہت قریبی عزیز کہیں جا رہا ہے ،اس کا سکتہ توڑنے کے لیئے میں نے پوچھا ماسٹر صاحب کیا بات ہے خیر تو ہے ؟ اس نے اپنی نم آنکھیں پونچھیں اور بولا بی بی ! آپنے یہ آدمی دیکھا ؟ میں نے کہا نہیں میرا خیال تو اپنے کپڑوں کی طرف تھا ویسے میں سمجھی نہیں کہ آپ گم صم کیوں ہو گئے۔

وہ بولے آپنے ہماری شاپ کے اوپر ایک چوبارہ تو دیکھا ہو گا جس پر ایک تنظیم کا بڑا بڑا نام لکھا ہوا تھا ۔۔۔ اوہ اچھا تو پھر؟ میری حیرانی بڑھتی جا رہی تھی ۔وہ بولے اللہ اس حکومت کا بھلا کرے جس نے ہماری اس مصیبت سے جان چھڑائی ۔ان لوگوں نے ہمارا جینا حرام کیا ہوا تھا کرایہ بھی نہیں دیتے تھے بلکہ ہماری آمدن میں بھی زبردستی کے حصہ دار تھے ۔کوئی ان کے ڈر کی وجہ سے چوُں بھی نہیں کر سکتا تھا کل سے ان میں افراتفری مچی ہوئی ہے اور آج یہ مجھے چابی دے گیا ہے مجھے ابھی تک اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا کہ اس عفریت سے جان بھی چھوٹ سکتی ہے ۔میرے پڑھنے والے یقینا سمجھ گئے ہونگے ۔کہ کس نے اس ظلم کا ہاتھ روکا تھا ۔

سرخ ہو جاتی ہے جب صحن چمن کی مٹی۔۔اسی موسم میں نئے پھول کھلا کرتے ہیں
وہ جن کی روزی روٹی لگی ہوئی تھی آرام سے اپنے اپنے گھروں میں تھوڑی بیٹھ گئے تھے ۔جیسے ہی صحن چمن کا دروازہ کھلا سرخ پھول کھلنے لگے ،سیاست کو تو ایسے ہی ہاروں کی تلاش ہوتی ہے جن کووہ اپنے گلے میں ڈال کے راج سنگھاسن سنبھال سکیں ۔ارے بھئی ساری مخلوق کو تو خدا بھی خوش نہیں رکھ سکتا ۔کسی خاکی انسان کی کیا اوقات کہ وہ سب کو خوش کر دے خاکیوں سے تو ویسے بھی سیاسیوں کو خدا واسطے کا بیر ہے اب اس کو کیا کہیے کہ ایک سانس میں فوج کو اپنا فخر کہا جاتا ہے اور دوسری میں غدار ۔بھلا جن کا سارا خاندان فوج میں گھسا ہوا ہو ان کو اتنا علم تو ہونا چاہیئے کہ جرنیل کرنیل کہیں اوپر سے نازل نہیں ہوتے نہ ہی انگوٹھے لگوا کے پینچر لگوا کے سیٹ سنبھال لیتے ہیں ،چالیس پینتالیس سال جب ایک شخص فوج میں گذارتا ہے تواسکی فائل بھی بنتی ہے ،اس کے اپنی کمیونٹی کے ساتھ تعلقات بھی بنتے ہیں۔ان بیانات کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے کہ مشرف ٹرائل کے خلاف نچلے رینکس میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ہر کوئی یہی کہتا ہے ٹرائل ہوتوپھر سب کا ہو۔ایک شخص کو سنگل آئوٹ کر کے سزا دینا کہاں کا انصاف ہے ؟

ماشا اللہ کیا جواز ہے کہ اکتوبر 1999 نوازشریف نے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے ضیا الدین بٹ کو افواج پاکستان کا سربراہ بنانے کی کوشش کی (یہ اور بات کوشش مہنگی پڑ گئی)اور ایسا کرتے ہوئے میاں صاحب کے سامنے کارگل کی جنگ اور پرویز مشرف کی باغیانہ روش تھی ۔وہ جو ہیلی کوپٹر پے بیٹھ کے کارگل کے مجاہدین کی پیٹھ تھپکنے پہاڑوں پے میاں صاحب جا پہنچے تھے وہ کیا تھا؟ایسے بہت سے ثبوت حاضر کیئے جا سکتے ہیں ۔جنگ تو اس وقت بری لگی تھی جب انڈیا کو آگ لگی ۔اور اگر کارگل مشرف کی تنہا غلطی تھی تو فوج کا اپنا نظام ہے سزا دینے کا جس میں سپاہی اور جرنیل میں کوئی تمیز نہیں کی جاتی ۔لیکن اگر انصاف کا ترازو اپنے ہی ہاتھ میں رکھنا تھا ،تو پھر گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیوں کیا ؟ کہا جاتا ہے مشرف طاقتور ہے اس لیئے سزا سے بچ رہا ہے ،ایک ریٹائر بوڑھا جرنیل جس کے ساتھ بقول آپکے فوج کی طاقت بھی نہیں ۔ نہ اسکی جدہ میں سٹیل ملیں ہیں نہ انڈیا میں شوگر ملیں ہیں نہ آدھے برطانیہ میں اس کے کاروبار پھیلے ہیں ،نہ پورے پاکستان میں اس کے خاندان کے پنجے گڑے ہیں ،نہ اس کے نام کی کہیں پھٹی لگی ہے جو خود اپنے آپ کو پیش کرنے آیا ہے

Courts

Courts

جس کو کئی مقدمات میں عدالتیں بری کر چکی ہیں اس کو صرف غدار ٹھیرانے پر اصرار کیوں ؟ کیا اس کے پیچھے وہ خوف نہیں کہ فوج کو ہمیشہ کے لیئے ایک پیغام دیا جائے ؟ارے بھئی زرداری سے تو(جس کو شہباز شریف سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کیا کرتے تھے)میاں برادران برے نہیں ہیں اگر وہ شخص اس قوم پر پانچ سال حکمرانی کر سکتا ہے۔تو یہ بھی آرام سے حکومت کریں فوج سے پنگے ضرور لینے ہیں ۔ہم تو نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں ۔جمہوریت کو جڑ پکڑنے دیجئے،اگر ہاتھ لگ ہی گئی ہے تو مزے لیجئے ۔بقول آپکے اپنے کرائے گئے سروے کے عوام آپکے ساتھ ہے ،میڈیا آپکے ساتھ ہے ،عدلیہ آپکے گھر کی لونڈی ہے ،پارلیمنٹ آپکی دہلیز پر ہے بڑے بڑے جغادری صحافی آپ کا دم بھرتے ہیں ،پولیس آپکی نمک خوار ہے ،مشرف دور کی ساری کابینہ آپکی گود میں بیٹھی ہے (کوئی شرم و حیا نہیں لوگوں کو)آخر انھیں اور کیا چاہیئے ؟ لیکن یہ ہمیشہ اپنا ”کلہّ” مضبوط کرنے کے چکر میں ”کلہ” ہی توڑ بیٹھتے ہیں ۔ہم تو بڑے ادب سے عرض کر رہے ہیں ،مشرف کو ہتھکڑیاں لگوائیے،ناک سے لکیریں کھنچوائیے،بھلے پھانسی پر لٹکائیے مگر غدار مت کہیں دلوں میں رنج بڑھتا ہے ،دشمن خوش ہوتا ہے ،دشمن کو ضرور خوش کریں ۔

مگر وقت اور حالات کی نزاکت کو بھیملحوض خاطر رکھیئے نہ آٹا، نہ بجلی ،نہ پانی نہ گیس جب عوام کے پیٹ میں مروڑ اٹھا تو آئین سے پیٹ نہیں بھریں گے ،چلو بھر خون پیئیں گے ۔میاں صاحب کے کے سمدھی ڈالر صاحب کا بیان تو آج بھی اخبارات کی شہ سرخی بنا ہوا تھا کہ مزید ٹیکس لگیں گے عوام کڑوی گولی کھانے کے لیے تیار رہیں بندا گڑ نہ دے گُڑ جیسی میٹھی بات تو کرے ۔ایک طرف پارلیمنٹ کی تزئین و آرائش پہ کروڑوں کے خرچے کی نوید سنائی جاتی دوسری طرف عوام کو روز یہ بد خبریاں دی جاتی ہیں اللہ کا خوف کرو ظالمو ۔اور یہ کیا مذاق ہے کہ میاں برادران کو حکومت سنبھالے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں بلامبالغہ پندرہ سال تو یہ صرف پنجاب پہ حکمرانی کر چکے ہیں اور دس سال یہ پنجاب اور وفاق دونوں پہ قابض رہے

عوام کی یاداشت کمزور سہی ۔لیکن ابھی زرداری دور میں پانچ سال کس نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پر حکومت کی ہے ؟جھاں بیٹھ کے یہ زرداری کو للکارے مارتے رہے ہیں ،اور جونہی یہ دھاندلی سے وفاق پر قابض ہوئے زرداری کو جپھا ڈال کے بیٹھ گئے عوام بیچاری اس ایک آئٹم سونگ سے بھی محروم ہو گئی جو خادم اعلی مائک توڑ توڑ کے گایا کرتے تھے ”میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا ”زرداری کو لوگ گالیاں دے کے دل کی بھڑاس تو نکال لیا کرتے تھے ،یہ تو اپنا کتا بھی نہیں بنانے دیتے ۔میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ مارتے تھے تو رونے تو دیتے تھے یہ مارتے ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے ۔

حضرت علی تو اللہ کے لیئے لڑ رہے تھے جب دشمن نے تھوک پھینکا تو دشمن کے سینے سے اتر آئے کہ اب یہ زاتی دشمنی گنی جائے گی یہ تو اپنا بدلہ اُتارنے کے لیئے اُلٹا سینے پہ چڑھ گئے ہیں باقی الزاموں سے تو عدلیہ مشرف کو بری کر چکی ہے ۔اور آج زرا غداری پہ بھی بات ہو جائے مال صدقہ جان ہوتا ہے اور جان صدقہ آبرو۔۔۔۔۔
ہماری فورسز ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیئے جان دیتی ہیں (کیونکہ آئین سرحدوں کے اندر نافذ ہوتا ہے آپ امریکہ یا بھارت میں اپنا آئین نافذ نہیں کر سکتے ) وانا کا پہلا شہید لیفٹیننٹ میرے بیٹے کا کورس میٹ تھا (گروپ فوٹو میرے پاس ہے )میرا بیٹا کئی روز تک سو نہ سکا۔اس کی یادیں اسکی آنکھوں میں کنکر بن کے چبھتیں لیکن کیا کریں کہ آبرو کا صدقہ ہی جان ہے اور وانا میں دشمن کون تھا یہ بھی سب جانتے ہیں ۔اگر آپ دہشت گردوں سے امن کا معاہدہ کر لیں کہ آپ ہمیں اور ہمارے حواریوں کو چھوڑ دیں باقی سارا ملک آپکے حوالے تو اس کو امن نہیں کہتے یہ اعلیٰ درجے کی غداری ہے ملک کے ساتھ ۔۔جب آپ کو اقتدار ملے ہی اس شرط پر کہ آپ ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے ۔تو اس عمل کو فوج تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے کیونکہ ایسی قوتوں کے ساتھ معاہدے آپکی فوج کو عملاً غیر موثر کر دیتے ہیں افواج پاکستان کو اپنا فخر صرف کہہ دینے سے حق ادا نہیں ہوتا ۔

اُن پہ غداریوں اور سازشوں کے الزام لگائو ،ان کا بجٹ آپکو چبھے ،دفاعی سازو سامان کی فراہمی کو آپ انکی عیاشیوں سے تعبیر کریں ۔حالانکہ یاد کرو اللہ اور اس کے نبی ۖ کا فرمان جب صحابہ جنگ کی تیاری کے وقت اپنے گھر کا ساز وسامان تک اُٹھا لایا کرتے تھے ۔جس دین میں نمود و نمائش اور تکبر کو حرام قرار دیا گیا ہے اسی دین اسلام نے سامان حرب کی تیاری اور سامان حرب کی نمائش کو احسن قرار دیا ہے تا ک دشمن پر رعب پڑے ۔یہاں دہشت گردوں کو تو اسمبلیوں میں لایا جا رہا ہے ۔اور اپنی فوج کے خلاف ڈیفنس منسٹر ہائوس آف دی فلور پہ کھڑے ہو کر نفرت کا اظہار کرتے ہیں انکی تمام قربانیوں کو سبوتاژ کرتے ہیں ۔دفاعی بجٹ کو انکی عیاشی قرار دیتے ہیں ،حالانکہ ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں پکنک کے لیئے استعمال نہیں ہوتیں ،ایف 16 میں بیٹوں کی باراتیں نہیں جاتیں یہ سارا سازو سامان دفاع وطن کے لیئے استعمال ہوتا ہے ۔ان فوجیوں کی عیاشی کی حد کیا ہے

کسی کی شادی ہوئی تو یونٹ کو کھانا کھلا دیا ۔اپنے جونیئرز کو شاباشی دے دی ان کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کر لی ۔وطن کے لیئے جان دینے والوں کی یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور چھوٹی چھوٹی عیاشیاں ہیں ۔ہاں لاکھوں میں چند ایسے بھی ہیں جنھوں نے سیاستدانوں کی فرزندگیاں اختیار کر لی ہیں اور اپنے ادارے کی آبرو گنوانے کا باعث بنے ہیں ۔کچھ نے شائد ڈالروں کے عوض چند مطالبات مان لیئے ہوں لیکن وطن سے غداری پھر بھی نہیں کی ہوگی ۔یہ میرا ایمان ہے ۔کیونکہ فوج کے اندر اس کی بہت کڑی سزا ہے ۔میں تو ایک عام سی لکھاری ہوں جس پہ فوج کی چمچہ گیری کا الزام دھرا جاتا ہے ۔جس کی معلومات کا دائرہ بھی بہت محدود ہے ۔لیکن میں آپکو ایک کہنہ مشق بزرگ صحافی جناب محمود شام کے خط سے جو انہوں نے نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تقرری کے ساتھ ہی انہیں لکھا تھا میں اس میں سے کچھ اقتباسات لکھ رہی ہوں جنھیں پڑھ کے قارئین بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ محب الوطن قوتیں کتنے اضطراب میں ہیں۔
وہ لکھتے ہیں میرے عظیم سپہ سالار ! جس لمحے میں آپ سے مخاطب ہوں ۔اپنا جغرافیہ لرزتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔تاریخ بال کھولے رو رہی ہے ۔فضائوں میں شہیدوں کے خون کی خوشبو رچی ہے ۔دہشت گردی اپنی شدت پر ہے ۔آپ ایک ایسی سپاہ کے سپہ سالار مقرر ہوئے ہیں جس پر اپنے فخر کرتے ہیں تو دوسرے رشک۔۔۔۔اپنوں کی سازشوں ،غیروں کی خواہشوں ، بے حد خراب حکمرانی ، قائدین کی کوتاہیوں ابتر ہوتی معیشت ، پامال ہوتی اقدار ، اداروں کی ایک دوسرے میں مداخلتوں کے تناظر میں ،میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے حقیقتاً تاریخ کے ایک فیصلہ کن مرحلے پر پاکستان کی قابل فخر افواج کی کمان سنبھالی ہے ۔

وہ لکھتے ہیں لاکھوں انسانوں کی جانوں کے نذرانے سے قائم ہونے اور بے حساب وسائل رکھنے والا شاندار محل وقوع کا حامل یہ ملک اس وقت اندرونی و بیرونی دشمنوں کی زد میں ہے کوئی دن نہیں گذرتا جب انسانی لہو نہ بہتا ہو ،خاکم بدہن نقشہ بدلنے کی سرگوشیاں بھی ہونے لگی ہیں ۔یہ خدشات یہ تشویش میری ذات تک محدود نہیں ہے ۔بلکہ خیبر سے کراچی تک دعائیں مانگتی نئی و پرانی نسلوں کے کرب کا اظہار بھی ہے ۔ہر ذہن میں کئی سوال تڑپ رہے ہیں ۔لیکن اس کے ساتھ دل کی گہرائیوں میں یہ تسکین بھی موجود رہتی ہے کہ1947سے تربیت نظم و ضبط اور جان نثاریوں سے گذرنے والی تینوں مسلح افواج بہترین پیشہ ورانہ طاقت کی بنا پر جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کر سکتی ہیں اگر انہیں نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے واہمے میں نہ الجھایا جائے ۔وہ کہتے ہیں قوم نے اپنا پیٹ کاٹا مگر دفاعی سازوسامان کے بجٹ میں کمی نہیں آنے دی ۔پاکستان کے اکثر سرکاری و غیر سرکاری ادارے انحطاط اور شکست و ریخت کا شکار ہوئے مگر فوج واحد ادارہ تھا جو مستحکم و متحد رہا ۔یقینا معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ ، اقدار کی بوسیدگی ، رویوں میں نا ہمواری کے اثرات اس کی صفوں میں بھی داخل ہونے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔لیکن سویلئن اداروں کی طرح یہاں تارو پود بکھرا نہیں ۔وہ لکھتے ہیں پاکستان واحد ملک ہے

جہاں سے غیر ملکی حکمراں خصوصاً امریکی عہدیدار پاکستان سے ہو کر جائیں تو کہتے ہیں ہم نے پاکستان میں سیاسی و فوجی دونوں قوتوں سے تبادلہ خیال کیا۔کسی اور ملک کے دورے کے بعد ان کے ایسے بیانات نہیں آتے ۔ہمارے حکمرانوں کی خود پرستی، بد عنوانی اور ناقص منصوبہ بندیوں نے دوسری قوموں کے مقابلے میں پاکستانی قوم کو کتنی پستیوں میں دھکیل دیا ہے ۔

2001کے خون ریز تاریخی موڑ کے بعد کی جرتوں اور حکمتوں کو بھی اپنوں کے تجزیوں نے گہنا دیا ۔۔۔ اور قارئین یہی وہ فقرہ ہے جس کی گہرائی میں اتر کر دیکھیں تو تمام الزامات دھرے رہ جاتے ہیں جو مشرف پر لگائے گئے ۔۔۔۔۔ایک بزرگ صحافی جس نے پاکستان کے تمام ادوار دیکھے ہیں یہ فقرہ ایک آرمی چیف کو لکھ رہا ہے جس نے ابھی کمان سنبھالی ہے ۔اور یہ بھی کہ کوئی اور ملک ہوتا تو مجھ بیسا سینئر صحافی شاعر کبھی بھی آرمی چیف سے مخاطب ہونے کی ضرورت محسوس نہ کرتا لیکن پاکستان میں فوج کا ایک ایسا کردار رہا ہے

جہاں ان معروضات کی یقینا ایک سماجی ،علمی اور منطقی اہمیت ہے ۔خدا کرے وہ وقت جلد آئے ہماری قومی سیاسی جماعتیں جمہوریت کے استحکام کے لیے اپنی تنظیم ،اپنے عہدے میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کے ذریعے تقسیم کریں اور سیاسی وسعتوں میں ایسا خلا نہ پیدا ہونے دیں جہاں متبادل قوت کے طور پر فوج کو میدان میں اترنا پڑے ۔خراب حکمرانی کے ذریعے سیاسی رہنما ایسے حالات پیدا نہ کریں جہاں پامال ۔نادار ستم رسیدہ عوام کی نگاہیں جی ایچ کیو کی طرف اٹھنے لگتی ہیں ۔یہ میرا آپکا سب کا پاکستان ہے۔

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر:مسز جمشید خاکوانی