ہم نے ستر سال آپ ہی کو پڑھا ہے

Pak Army

Pak Army

تحریر : مسز جمشید خاکوانی

حکومت کی معاشی بحالی میں بڑی کامیابی خسارہ 20 ارب ڈالر سے کم ہو کر 2.9 ارب ڈالر رہ گیا اندرونی و بین الاقوامی مشکل حالات کے باوجود دو برس کے دوران معاشی شعبوں میں بڑھوتری اور استحکام ترسیلات زر میں بھی بہتری ،نواز دور میں برامدات میں کوئی اضافہ نہ ہوا زر مبادلہ کے ذخائر نو ارب ڈالر رہ گئے تھے موجودہ حکومت استحکام لے کر آئی یہ آج ہی خبریں اخبار میں خبر چھپی ہے ساتھ ہی رانا ثنا اللہ کا بیان عمران خان اور اس کے حواری ملک کو چلنے نہیں دے رہے یعنی آپ کس طرح چلانا چاہتے ہیں رانا صاحب؟جس طرح پہلے یہ ملک چانکیائی اصولوں پر چل رہا تھا ؟اپوزیشن کی بے تکی سٹیٹ منٹیں دیکھ کر مجھے چند دن پہلے پڑھی ایک کہانی یاد آ گئی اس کو انڈر سٹینڈ ضرور کیجیے گا کیا ماضی کی دو پارٹیاں انہی اصولوں پر ملک چلاتی رہیں ؟۔

بھور سمے گرو نے اپنے شکشک (شاگرد )کو حکم دیا ” یہ ببول آنے جانے والوں کو بہت تنگ کرتا ہے ” اب اسے ختم کرنا ضروری ہو گیا ہے اس لیے آج اس درخت کے چاروں طرف ہلکا سا گڑھا کھود کے اس میں چونا ڈال دینا شکشک نے بے یقینی سے گرو کو دیکھا جیسے گرو جی نے اس کے کسرتی جسم کا مذاق اڑایا ہو وہ بچپن سے تلوار ،نیزہ بازی اور کلہاڑہ چلانے کا ماہر تھا چاہتا تو کلہاڑی کے چند وار سے درخت کو ٹھکانے لگا سکتا تھا مگر گرو نے درخت کو کاٹنے کی بجائے اس کی جڑوں میں چونا ڈالنے کو کہا تھا۔

پرنتو مہاراج آخر چونا ہی کیوں کلہاڑی سے کاٹ کیوں نا ڈالوں ؟شکشک کے لہجے میں پرانے راجکمار والا لہجہ جھلکا تو گرو کے تلک لگے ماتھے پر بل پڑ گئے ۔۔ مت بھولو بالک ۔۔۔تم اپنے گھور اتیت میں ہارے ہوئے اور جان بچانے کے لیے اپنی ماں کو دشمنوں کے چنگل میں۔

پھنسا کر بھاگے ہوئے راجکمار ہو اگر میرا کہا مانو گے تو کامیاب ہو گے

اور شاگرد چپ چاپ درخت کے گرد دائرہ بنا کر چونا ڈالنے میں جت گیا وہ اپنے درد ناک ماضی کو بھلانا چاہتا تھا مگر وہ محسوس کرتا تھا کہ جب کبھی وہ گرو کے کسی حکم پر سوال اٹھاتا تھا گرو جی مہاراج اسے اس کا شرمندگی اور ناکامی سے بھر پور ماضی یاد دلانے لگتے تھے اسے اپنے گرو اور اس کی چھوٹی سی کٹیا سے بہت پریم تھا روز ایک نیا گیان روز ایک نئی سوچ اسے ملتی تھی جو اسے آنے والے وقت کے لیے تیار کر رہی تھی۔

وہ اپنے ناکام ماضی کو سوچنے لگا اس کے پتا شری کے مرنے کے بعد اس کی ماں نے بہت کوشش کی کہ اس کو راج سنگھاسن پر بٹھا دے مگر سب بے سود ہوا اس کے سینا پتی چچا نے کچھ مشیروں کے ساتھ مل کر راج گدی پر قبضہ جما لیا تھا جوان خون نے گرمی دکھائی اس نے اپنے چند وفاداروں کے ساتھ مل کر بغاوت کا علم بلند کر دیا چچا نے اس کی ماں کو محل میں ہی قید کر دیا اور اس سے مقابلے کے لیے فوج لے کر اس کی بغاوت کو بری طرح کچل ڈالا ،اس سارے خونی کھیل میں راجکمار نے پنجاب کے پہاڑی علاقے ٹیکسلا کی جانب بھاگ کر بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی یہاں ٹیکسلا میں اسے گرو جی مہاراج وشنو گپت کی پناہ مل گئی۔

وشنو گپت ،تاریخ جسے چانکیہ جی مہاراج کے نام سے جانتی ہے جس کا حسد اتنا مشہور تھا کہ عوام نے اسے ”کوتلیہ” یعنی حاسد کا نام دیا اور یہ شکشک یعنی شاگرد بھی کوئی عام شاگرد نہ تھا گرم خون کے جوش میں ناکامیاں سمیٹنے والا اپنی ماں کو دشمن کے پاس چھوڑ کر بھگوڑا کہلانے والا یہ راجکمار چندر گپت موریہ تھا جس نے اپنے گرو کے اشاروں اور حکم پر چل کر ہندوستان کے ایک عظیم الشان راج کا آغاذ کیا اور اپنے راج کو اپنی ماں ” موریہ ” کے نام سے موسوم کیا مور کے پنکھ جس کے تخت کا نشان تھے اور جسے دنیا مہاراجہ چندر گپت موریہ کے نام سے جانتی ہے۔

چندر گپت موریہ نے راج سنگھاسن پر بیٹھتے ہی اپنے گرو چانکیہ جی مہاراج کو اپنا وزیر اعظم بنا لیا اپنی راج گدی کو مضبوط بنانے کے لیے چانکیہ جی کے مشورے پر مضبوط طاقتور سپاہیوں کی فوج کے متوازی ایک فورس تشکیل دی یہ فوج اس کی اپنی ریاست کے نائیک ، رقاصائوں اور فنکاروں پر مشتمل تھی جو دیگر ریاستوں کے شہر شہر قریہ قریہ اپنی نو ٹنکیاں لے کر ڈرامے رچاتی تھیں یہ ثقافتی جنگ دنیا کی پہلی لڑی جانے والی باقائدہ میڈیا وار تھی دیکھتے ہی دیکھتے مخلف ریاستوں کی عوام اپنے ہی راجہ اپنی ہی فوج کے مخالف ہوتے چلے گئے نتیجہ یہ نکلا کہ چندر گپت موریہ نے جس ریاست میں بھی قبضہ کرنے کی نیت سے قدم رکھا اسے بغیر مزاحمت کے یا معمولی مزاحمت سے اپنے علاقے میں شامل کر لیا ایسی تمام کامیابیوں کے پیچھے چانکیہ کی سیاسی چالوں کا کمال تھا چانکیہ جی نے اپنی سیاسی چالوں پر مبنی ایک کتاب لکھی جسے ” ارتھ شاستر ” کہا جاتا ہے یہ کتاب بھارتی سیاستدانوں کے لیے ” بھگت گیتا ” کا درجہ رکھتی ہے۔

اس سچی کہانی کو لکھنے کا مقصد صرف آپ کو یہ سمجھانا ہے کہ ہم پاکستانیوں نے پینتیس سال تک چانکیائی سیاست کے ثمرات دیکھے ہیں ہماری عورتوں نے بندیا اور سیندور لگانے کو اپنا کلچر بنا لیا ہمارے سیاستدان اور فنکار دونوں ممالک کے کلچر کو ایک ماننے لگے ہمارے ایک بائو جی تو اتنا سٹھیا گئے کہ سرحد کو بس بیچ کی ایک لکیر قرار دے دیا آلو گوشت من پسند بھوجن قرار پایا اس میں کوئی شک نہیں آلو گوشت کافی لذیز ہوتا ہے مگر سرحد پار والے صرف آلو کی بھجیا کھاتے ہیں گوشت کے نام پر تو وہ مسلمانوں کو جلا دیتے ہیں مار دیتے ہیں
ہمارے بچے اپنی پارٹیز میں جے جے ،شیو شنکر اور دم مارو دم پر رقص کرتے ہیں چانکیہ جی کی سیاست کی گونج آج پورے برصغیر میں ہی نہیں پوری دنیا میں گونجتی ہے یہ الگ بات ہے کہ آپ اسے ففتھ جنریشن وار کے نام سے جانتے ہوں۔

پچھلے سال ستائیس فروری کے دن جب پاکستان ایئر فورس نے دو بھارتی طیاروں کو مار گرایا تھا تو اس سے کچھ ہی دن قبل DG ISPR نے بھارت کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ” ہم نے ستر سال آپ کو پڑھا ہے ” اس دھیمے لہجے اور آواز نے بھارتی میڈیا میں بیٹھے دانشوروں کو آگ لگا دی تھی ستر سال بھارتی سیاست کو پڑھنے والی پاکستان آرمی اب بھارتی سیاسی چالوں کو انہی پر الٹنے لگی ہے (آپ کو یاد ہے میں نے اپنی وال پر ایک فقرہ لکھا تھا کہ اب شائد پاک فوج بھی سیاست سیکھ گئی ہے جس پر ہمارے سوشل میڈیا کے دانشوروں کو آگ لگ گئی تھی )مگر کچھ ناکام راجکمار جیسے جہادیوں کو چونا ڈالنے والی حکمت سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے تقریروں سے کچھ نہیں ہونا مگر دیکھ لو آج بھارت کو دہشت گردی کے عالمی الزام کا سامنا ہے ان کا کہنا ہے دھوپ میں کھڑا رہنے سے کچھ نہیں ہوتا مگر آج پاکستان کی پر امن جدو جہد کو دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

وہ کہہ رہے ہیں کہ گانے بنانے سے کچھ نہیں ہوتا ،مگر ہم دیکھ چکے ہیں کہ حدیقہ کیانی کا ترکش گلوکار کے ساتھ کشمیری جدوجہد پر گایا ہوا گانادو گھنٹے بعد ہی یو ٹیوب سے غائب ہو جاتا ہے ہر وقت فلمیں بنانے اور دیکھنے والی بھارتی قوم پر یہ گانا بجلی کی طرح گرتا ہے بھارتی سکول میں ” مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے ”پر ٹیبلو پیش کیا جاتا ہے تو پوری اسکول کی انتظامیہ پر مقدمہ بن جاتا ہے آپ مانیں یا نہ مانیں چونا اپنا اثر رکھتا ہے اس لیے میں کہتی ہوں اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں ابھی تو ہمیں اپنے اندر کے لاتعداد دشمنوں کا سامنا ہے جن کے دیے بیانات ہمارے لیے سد راہ بن جاتے ہیں کلبھوشن کو معصوم تاجر ثابت کرنے والا بھارت اب عالمی عدالت میں اپنے ،کمانڈو کلبھوشن کی رہائی کی کوششیں کر رہا ہے بہت آسان تھا کلبھوشن کو پھانسی پر چڑھا دینا ۔۔۔مگر دشمن کی قید میں ایک زندہ جاسوس پوری فوج کے لیے روز بدنامی کا باعث ہوتا ہے۔

چانکیہ جی کی سیاست اب چانکیہ کے پیروکاروں کے گلے پڑ رہی ہے گانے بنانے سے کیا ہو گا ؟ کہنے والوں سے میرا بھی ایک سوال ہے کسی ایسی اسلامی جنگ کا نام بتائیں جس میں پہل مسلمانوں کی طرف سے ہوئی ہو ؟اللہ کے نبی صلی اللہ وسلم نے مکہ میں کمزور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف جہاد کرنے کی بجائے انہیں وطن چھوڑنے اور ہجرت کا حکم کیوں دیا ؟۔

ابو جندل رضی اللہ عنہہ کو مسلمانوں کے سامنے بے دردی سے مارتے ہوئے لے جایا گیا مگر مسلمان کچھ نہ کر پائے آخر کیوں ؟

کیا تبلیغ کا جواب تبلیغ سے دینا اسلام سے ثابت نہیں ؟( آپ چانکیہ والی سیاسی چال کو خالص اردو یا عربی میں تبلیغ بھی کہہ سکتے ہیں پروپیگنڈے کا جواب پروپیگنڈے سے دینا سب سے بڑی جنگی چال ہے جو ویتنام نے سپر پاور امریکہ کے خلاف کامیابی سے استمعال کی تھی مضبوط درخت کو گرانے کے لیے اس کی جڑوں کو چونے سے جلانا ضروری ہوتا ہے چانکیہ جی کی اس سیاست کو جذباتی راجکمار بالا خر سمجھ گیا تو اس نے دشمن کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا مگر ہمارا جذباتی نوجوان شائد کبھی نہ سمجھ پائے کیونکہ ہمارے وہ سیاستدان جن کے یہ پیروکار ہیں وہ بھی تمام عمر جینوئن سیاست کی بجائے اپنے حریفوں کی کردار کشی کی چانکیائی سیاست کرتے آئے ہیں اس کردار کشی کی چانکیائی فارمولے کے تحت اب یہ لوگ طنزیہ طور پر اپنی ہی ریاست اپنی ہی فوج سے سوال کر رہے ہیں کہ ،گانے بنانے سے کیا ہو گا ؟پاکستان کا نقشہ بدلنے سے کیا ہو گا ؟

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی