گوانتانامو بے جیل کا آنکھوں دیکھا حال

Guantanamo

Guantanamo

گوانتانامو (اصل میڈیا ڈیسک) نائن الیون واقعے کے چار ماہ بعد یکم جنوری 2002 کو گوانتانامو جزیرے پر قائم امریکی حراستی مرکز میں پہلی مرتبہ افغانستان سے قیدیوں کو لایا گیا۔ دو دہائی اور جنگ کے خاتمے کے بعد بھی اس کیمپ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔

گیارہ جنوری 2002 کو اتاری گئی درج بالا تصویر گوانتانامو بے میں واقع ایکس رے حراستی مرکز کی ہے۔ اس میں 20 قیدی نارنجی وردی پہنے گھٹنوں کے بل بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ تمام اس کیمپ میں لائے گئے ابتدائی قیدی تھے۔ نائن الیون حملوں کے بعد امریکا کی متنازعہ حراستی پالیسی سے متعلق یہ تصویر سب سے زیادہ مشہور تصویروں میں سے ایک ہے۔

محمدو اولد صالحی کو زندگی کے 14برس اس جیل میں گزارنے پڑے۔ انہیں 70 دنوں تک اذیتیں دی گئیں اور تین برس تک ہر روز مسلسل 18گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔ اپنی گرفتاری سے قبل وہ جرمنی میں مقیم تھے۔ ان پر شبہ تھا کہ وہ القاعدہ کے اہم سرگرم کارکنوں میں سے ایک ہیں اور نائن الیون حملے میں ملوث رہے ہیں۔ لیکن یہ تمام الزامات عدالت میں کبھی بھی ثابت نہیں ہوسکے۔

صالحی کو 14 برس تک گوانتانامو بے حراستی مرکز میں رکھا گیا۔ اس دوران ان پر نہ تو فرد جرم عائد کی گئی اور نہ ہی انہیں قصوروار قرار دے کر سزا سنائی گئی۔ موریطانیہ نژاد صالحی اب 50 برس کے ہوچکے ہیں اور رہاکر دیے گئے ہیں لیکن ان کی زندگی کے چرا لیے گئے قیمتی 14 برسوں کا کوئی معاوضہ آج تک نہیں ملا۔

صالحی کی آپبیتی پر مبنی فلم دی موریطانین میں صالحی کا کردار ادا کرنے والے طاہر رحیم
صالحی کی آپبیتی پر مبنی فلم “دی موریطانین” میں صالحی کا کردار ادا کرنے والے طاہر رحیم

امریکی ڈیفنس اٹارنی نینسی ہالینڈر کی زندگی کا سب سے ہائی پروفائل کیس آج بھی انہیں پریشان کرتا ہے۔ صالح کی آپ بیتی پر حال ہی میں ایک فلم بنائی گئی ہے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے افغانستان میں واقع ایک دہشت گرد تربیتی کیمپ میں حصہ لیا تھا اور اوسامہ بن لادن کے سیٹیلائٹ فون پر آنے والی ایک کال کا جواب دیا تھا۔ گوکہ یہ بات ایسی نہیں تھی کہ اسے نظر انداز کردیا جاتا لیکن ان کے وکلاء کا کہنا تھا کہ صالحی کو قصور وار ٹھہرانے کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔

صالحی کی کہانی گوانتانامو بے حراستی مرکز میں قید کردیے جانے والے اس طرح کے بہت سارے قیدیوں کی کہانی ہے۔

گوانتانامو، قانون کے عدم احترام کا امریکی نمونہ
گوانتانامو بے حراستی مرکز سے ایسی بہت ساری آپ بیتیاں جڑی ہوئی ہیں۔ ہالینڈر بتاتی ہیں کہ گوانتانامو کے ذریعہ امریکا کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ ایک ایسے ملک کی ہے جو قانون کی حکمرانی کا ااحترام نہیں کرتا۔ وہ اسے ایک “انتہائی افسوس ناک صورت حال” قرار دیتی ہیں۔

یہ بات صرف ان 13 قیدیوں پر ہی نافذ نہیں ہوتی جو فرد جرم عائد کیے بغیر اب تک وہا ں قید میں ہیں اور برسوں سے اپنی رہائی کے منتظر ہیں بلکہ یہ بات ان مبینہ ملزمین پر بھی نافذ ہوتی ہے جن کے لیے “ہمیشہ کے قیدی” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور جو نائن الیون حملوں کے 20 برس بعد بھی اپنے خلاف مقدمات شروع کیے جانے کے منتظر ہیں۔

نظام قانون کی منظم انداز میں معطلی
ڈافنے ایوی ایٹر ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ اور گوانتانامو امور کی ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا فقدان کوئی حادثاتی معاملہ نہیں تھا بلکہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دورحکومت میں امریکی انتظامیہ کا مقصد ہی یہی تھا۔ ایوی ایٹر کہتی ہیں، “بش انتظامیہ نے بیرونی ملکوں میں جیل بنوائی ہی اس لیے تھی تاکہ وہاں امریکا کے نظام قانون سے بچا جا سکے۔”

ڈافنے نے ایمنسٹی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں گوانتانامو بے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی تھی۔ اس رپورٹ میں فرد جرم عائد کیے بغیر غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھے جانے والے کیسز کے علاوہ قیدیو ں کے ساتھ کی جانے والی غیر انسانی سلوک اور زیادتیوں کی تفصیلات درج ہیں۔

ڈافنے کہتی ہیں کہ حالانکہ ان الزامات کی تصدیق کے لیے عوامی طورپر کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہیں لیکن امریکی سینیٹ کی انٹلی جنس کمیٹی کے ذریعہ کی جانے والی انکوائری سمیت دیگر انکوائریوں میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ گوانتا نامو جیل میں قیدیوں کو کس طرح انتہائی بے رحمی کے ساتھ اذیتیں دی گئیں۔

کیوبا کے گوانتانامو بے میں واقع امریکی بحریہ کا اڈہ 100 برس سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ لیکن نائن الیون کے حملوں کے چند ماہ بعد اسے ایک حراستی مرکز میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ مرکز کافی بدنام ہے۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ایک ملزم عبدالرحیم النشیری کے وکیل انتھونی نتالے گوانتانامو بے حراستی مرکز کی صورت حال پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ” ہم شرمندہ ہیں کہ وہ تمام اصول جن کی بنیاد پر ہم نے ایک ایسے ملک کی تعمیر کی جسے ہم آزاد ملک کہہ سکتے ہیں، جہاں ہر شخص انصاف کا یکساں حقدار ہے۔ اسی ملک نے ان اصولوں کو ترک کر دیا۔”

ڈی ڈبلیو نے گوانتانامو بے میں کیا دیکھا؟
گوانتانامو بے حراستی مرکز کو دیکھنا آسان نہیں ہے۔ اس کو دیکھنے کے خواہش مند صحافیوں کو اس کے لیے ناکوں چنے چبانے پڑتے ہیں۔ انہیں کئی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ مثلا ً واشنگٹن سے پرواز کرنے والے ہفت روزہ چارٹرڈ طیاروں کو کیوبا کے فضائی حدود سے ہوکر گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔ طیاروں کو پہلے مشرق کی طرف کیوبا کا چکر لگانا پڑتا ہے۔ جب تک طیارہ نیچے اترنے کے لیے ٹھیک رن وے کی جانب نہ بڑھے اس وقت تک اسے ملٹری بیس کی طرف جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ڈی ڈبلیو کو کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی سیکورٹی چیک کے بعد بہت مختصر نوٹس پر گوانتانامو جانے کی اجازت ملی۔ روانہ ہونے سے قبل کئی “ضابطوں ” پر دستخط کرائے گئے۔ اس سے صحافیوں کو گوانتانامو کی صورت حال کا کچھ اندازہ ہوسکتا ہے۔ وہاں اپنی مرضی سے کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی پریس کی آزادی ہے۔

ہمیں جیل کو باہر سے دیکھنے تک کی اجازت نہیں دی گئی۔ حراستی مرکز کے اندر کی تمام معلومات انتہائی راز میں رکھی جاتی ہیں۔ یہ طریقہ کار قیدیوں کے وکلاء کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔

منصوبے، منصوبے، منصوبے
گیارہ جنوری کو گوانتانامو بے حراستی مرکز کے قیام کی تکلیف دہ سالگرہ ہے۔ یہ دن یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ اس قید خانے میں انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی واضح خلاف ورزیوں کے باوجود اسے آج تک برقرار کیوں رکھا گیا ہے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ بھی ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ بھی اب ختم ہوچکی ہے، امریکی افواج افغانستان سے واپس لوٹ چکی ہیں۔ ایسے میں اس حراستی مرکز کو برقرار رکھنے کا جواز کیا ہے؟

گوانتانامو بے حراستی مرکز کو بند کرنے کا ابتدائی منصوبہ جارج بش انتظامیہ کے آخری دنوں میں تیار کیا گیا۔ براک اوبامہ نے اسے بند کرنے کا کئی بار وعدہ کیا۔ لیکن امریکی کانگریس میں ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت ختم ہوگئی۔ ریپبلیکن اکثریت نے ایک قانون منظور کرایا۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے نینسی ہالینڈر کہتی ہے کہ اس قانون کے مطابق، “ایسا کوئی فرد جو گوانتاناموبے میں قیدرہا ہو، کسی بھی سبب سے امریکا میں داخل نہیں ہو سکتا ہے۔ خواہ مقدمہ کے لیے یا پھر کسی طبی ضرورت کے تحت۔” نینسی کہتی ہیں کہ اس قانون کی وجہ سے گوانتانامو بے کے قیدیوں کو امریکا لانا قانونی طورپر ناممکن ہوجاتا ہے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ گوانتانامو حراستی مرکز کھلا رہے گا۔ ری پبلیکن پارٹی کے مطابق گوانتانامو دہشت گردانہ حملوں کے خطرات سے امریکا کی حفاظت کرتا ہے۔ یہاں قیدلوگوں کو امریکا میں منتقل کرنا بہت خطرناک ہوگا۔ دوسری طرف گوانتانامو کے مخالفین کی دلیل ہے کہ اس حراستی مرکز کی موجودگی بھی مسلم نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف مائل کررہی ہے۔

گوانتانامو بے سے متعلق نئی تبدیلی موجودہ صدر جو بائیڈن کے دور میں آئی ہے۔ بائیڈن نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی ترجمان کے ذریعہ یہ اعلان کروایا کہ وہ عہدہ صدارت پر رہتے ہوئے اس مرکز کو بند کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ لیکن جب امریکی سینیٹ کی انٹلیجنس کمیٹی کی حالیہ میٹنگ ہوئی تو اس میں بائیڈن انتظامیہ کا کوئی فرد موجود نہیں تھا۔اس سے حکومت کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ نینسی کہتی ہیں کہ حکومت ابھی تک اپنے قول پر عمل کرتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

صورت حال اب بھی غیریقینی
ایسے میں جب کہ بائیڈن انتظامیہ کا انفرااسٹرکچر پروگرام ناکام رہا ہے اور وسط مدتی انتخابات قریب آ رہے ہیں، موجودہ حکومت کے سامنے گوانتانامو سے بھی کہیں زیادہ بڑے مسائل ہیں۔ اس لیے گوانتانامو بے حراستی مرکز کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ قیدیوں کو رہا کردیا جائے جبکہ بقیہ قیدیوں کو ان کے وطن واپس بھیجا جاسکتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈافنے ایوی ایٹر کہتی ہیں، “جیسے جیسے قیدیوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی یہ واضح ہوتا جائے گا کہ یہ سب کتنا غیر منطقی اور بے سود تھا۔”

یہ بھی واضح ہے کہ اس معاملے میں معروف اخلاقی اسباب کے علاوہ اقتصادی پہلو بھی شامل ہیں۔ گوانتاناموبے میں بند ہر ایک قیدی پر امریکی ٹیکس دہندگان کا سالانہ تقریباً 13ملین ڈالر خرچ ہوتا ہے۔ اگر انہیں امریکا میں قید رکھا جائے تو خرچ کم آئے گا۔ لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہیں۔

نینسی ہالینڈر کا مطالبہ ہے کہ گوانتانامو حراستی مرکز میں بند قیدیوں کو فوراً رہا کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا، “ہم فرد جرم عائد کیے بغیر لوگوں کو بیس بیس برس تک قید میں نہیں رکھ سکتے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ان قیدیوں پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے خاطر خواہ ثبوت موجود نہیں ہیں البتہ اسے اتنا معلوم ہے کہ یہ لوگ خطرناک ہیں۔”

گوانتانامو بے حراستی مرکز کے مستقبل کا سوال اب صرف دلیل کی کسوٹی پر حل نہیں ہوسکتا۔ امریکا کی طرح ہی دیگر ملکوں میں بھی یہ مسئلہ ایک سیاسی مہرا بن گیا ہے اور اس کی وجہ سے “ہمیشہ کے قیدی” گزشتہ بیس برس سے اپنے مقدمے کی سماعت شروع ہونے کے منتظر ہیں۔