میری کردار کُشی کی جا رہی ہے، گلالئی اسماعیل

 Gulalai Ismail

Gulalai Ismail

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) ایوارڈ یافتہ سماجی کارکن گلالئی اسماعیل نے ایسی تمام خبروں کی سختی سے تردید کی ہے کہ وہ پاکستان سے برقع پہن کر فرار ہوئیں یا پھر راستے میں وہ ویڈیوز بنا رہی تھیں۔

تینتیس سالہ گلالئی اسماعیل نے گفتگو کرتے ہوئے ایسی تمام رپورٹوں کی مذمت کی ہے، جن میں ان کی نجی زندگی کو بھی موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کا مقصد ان کے خلاف پروپیگنڈا کرنا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے حال ہی میں ڈی ڈبلیو پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ نجی زندگی کی بجائے، ان کی سیاسی جدوجہد پر بات ہونی چاہیے، ”میری مزاحمت پر بات ہونی چاہیے، میرے پاکستان سے امریکا آنے اور اس کی وجوہات پر بات ہونی چاہیے۔ اس پر تنقید کرنی ہے تو تنقید کی جائے یا اختلاف کیا جائے۔‘‘

اپنے ایک بیان میں انہوں نے مزید کہا، ”پاکستان کے بہت سے صحافی اور سوشل میڈیا صارفین مجھے برقعے کے مدمقابل کھڑا کرنا چاہ رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں برقعے کی مدد سے بھاگی ہوں یا پھر راستے میں اپنی ویڈیوز بنا رہی تھی، یہ بالکل غلط بات ہے۔‘‘ ان کا فرار کے وقت حالات کی سنگینی کے حوالے سے کہنا تھا، ”اُس وقت میری زندگی خطرے میں تھی۔ میرے پاس موبائل نہیں تھے، میں اپنی زندگی بچانے کا سوچ رہی تھی اور خود کو زندہ سلامت کہیں پہنچانا چاہتی تھی۔‘‘

قبل ازیں میڈیا پر یہ خبریں منظر عام پر آئی تھیں کہ وہ راستے میں ویڈیوز بناتی رہی ہیں اور مستقبل میں اس حوالے سے کوئی ڈاکومیٹری بنا سکتی ہیں۔ ایسی خبروں کی تردید کرتے ہوئے گلالئی اسماعیل کا کہنا تھا، ”میں اس وقت فلمیں بنانے کا نہیں سوچ رہی تھی، میں کوئی فلم میکر بھی نہیں ہوں کہ اس وقت سوچتی کہ یہ سین بہتر رہے گا یا پھر وہ سین بہتر رہے گا۔‘‘

قبل ازیں انہوں نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یہ نہیں بتا سکتیں کہ وہ پاکستان سے کیسے فرار ہوئیں اور کس کس شخص نے ان کی مدد کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تفصیلات منظر عام پر لانے سے کئی لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی زندگی کی کہانی پر بہت اچھی فلمیں بھی بن سکتی ہیں اور کئی کتابیں بھی لکھی جا سکتی ہیں لیکن ان کے اس سفر کا مقصد فلمیں بنانا یا کتابیں لکھنا نہیں تھا، ”اس سفر کا مقصد اپنے آپ کو زندہ بچانا تھا تاکہ میری جس آواز کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے، وہ آواز بند نہ ہو۔‘‘

انہوں نے کہا کہ وہ مستقبل میں بھی پشتونوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہیں گی۔ ان کا کہنا تھا، ”پشتونون کی زمین پر جو ظلم ہو رہے ہیں، جو اغوا گردی کی جا رہی ہے، جو ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے، وہ کہانی ساری دنیا کو پتا چلنی چاہیے۔ دنیا کو پتا چلنا چاہیے کہ یہاں کس طرح دہشت گردی کے دوران اور پھر اسے ختم کرنے کے لیے جو ملٹری آپریشن کیے گئے، ان کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئیں اور عام لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔‘‘

صوبے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن گلالئی اسماعیل چند روز پہلے پاکستان سے فرار ہو کر امریکا پہنچ گئی تھیں، جہاں انہوں نے پاکستان میں اپنی ‘زندگی کو لاحق خطرات‘ کو بنیاد بنا کر اپنے لیے سیاسی پناہ کی درخواست بھی دے دی ہے۔