بہشتی دروازہ

Bahishti Darwaza

Bahishti Darwaza

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

آج کرہ ارضی پر اربوں انسان بستے ہیں اِن انسانوں کے قلب و روح اور نہاں خانوں کے بعید ترین عمیق ترین گوشوں میں ایک خواہش جگنوکی طرح ٹمٹماتی ہے کہ وہ مرنے سے پہلے کو ئی ایسا کام ضرور کر جائے کہ لوگ اُس کے جہان ِ فانی سے جانے کے بعد بھی اُسے یاد رکھیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ زیادہ تر انسان خود رو جڑی بوٹیوں کی طرح اپنے مقررہ وقت پر دھرتی پر نمودار ہو تے ہیں اور پھر کوئی آوا ز کوئی تاثر دئیے بغیر مٹی کے ڈھیر میں ڈھل جاتے ہیں اگر کسی کے پاس اقتدار اور دولت کے ذخائر ہوں تو وہ اپنی اِس خواہش کو پو ری کر نے کے لیے مختلف کام ‘ پر شکوہ عمارتیں بنا کر خو د کو تاریخ کے اوراق زندہ کرنے کی کو شش کرتا ہے لیکن وقت کی آندھی صدیوں کے غبار میں وہ گمنامی کے اندھے غار میں غرق ہو جاتے ہیں دولت مندسلاطین نے دولت اورانسانی لشکروں کے سب بہت سارے اوٹ پٹانگ کا م کئے لیکن قافلہ روز و شب کی گردشوں میںآج اُن کا کوئی کام لینے والا تک نہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اکثریت کی ہڈیوں کا چورہ ‘ قبروں تک کا آج کے انسان کو پتہ نہیں اِس کے بر عکس تاریخ کے ہر دور میںکچھ ایسے خاک نشین بھی پر دہ جہاں پر ابھرے کہ جو نہ تو دولت مندتھے نہ اُن کے پاس لاکھوں کے فوجی لشکر تھے نہ ہی اُنہوں نے شہرت کے لیے حماقتیں کیں لیکن پھر بھی شہرت کی دیوی اُن پر مہربان رہی وہ دنیا سے چلے بھی گئے لیکن خدائے لازوال نے کسی نہ کسی طرح اُن خاک نشینوں کو زندہ رکھا یہ عظیم نفوس قدسیہ گلشن تصوف کے سدا بہار پھول ہیں کہ صدیوں کی الٹ پھیر سے بھی اِن پھولوں کی تازگی اور رنگت میں فرق نہیں آیا اِن کی تازگی مہک اور رنگ ہر گزرتے دن کے ساتھ نکھرتا چلا جارہا ہے پیوند لگے پرانے کپڑوں میں ملبوس یہ فرش نشین بے نیازی کی دولت سے مالا مال تھے جنہوں نے ساری زندگی دانستہ کو ئی بھی ایسا کام نہ کیا کہ وہ شہرت کے آسمان پر جگمگائیں یا زمانہ انہیں اُن کے جانے کے بعد یاد کر ے لیکن وہ کیا وجہ ہے کہ نہ تو اِن اولیاء حق نے دولت کے ذخائر کو لٹا یا اور نہ ہی اپنے مریدوں کو شہرت کے حصول کے لیے استعمال کیا خو راک بھی اِن کی سادہ کپڑے بھی سادہ ہی رہے لیکن پھر بھی آج اِن کے آستانے رنگ و نور میں نہاتے ملتے ہیں جہاں پر دن رات درود و سلام قرآن نعت شریف کے زمزے پھوٹتے ہیں لاکھوں دیوانوں کا ہجوم اِن کی قبروں کا طواف کر تا نظر آتا ہے تو رازسے پر دہ اٹھتا ہے کہ انہوں نے کو ئی ایسی عبادت یا ادا ضرور کی ہے جو رب کائنات نے انسانوں کے دلوں میںاِن کی محبت اور شہرت بٹھا دی ہے۔

انسانوں کے علاوہ کائنات کی مخفی قوتوں کے دلوں میں بھی اِن کی محبت بٹھا دی ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خاک نشین تھے جنہوں نے اِس پوری کائنات میں صرف خدا کو چُنا پھر خدا کی ہر چیز سے محبت کی خود کو صرف الٰہی رنگ میں رنگا ‘ پھر خدمت خلق کو زندگی کا مقصد اعلیٰ بنا لیا انسانوں کی کردار سازی کی صالح انسانوں کو تیار کیا جو نفرت کینہ بغض سے پاک تھے جو محبت رواداری پیار و مساوات کے علمبرادار تھے یہ لوگ محبت کے مسافرتھے خدا سے محبت کے بعد اُس کی ساری مخلوق سے محبت کہ یہ خاص لوگ تھے جن کی ہر سانس خدا کی اطاعت میں گزری پھرجا کر ایسے لوگوں کو شہرت دوام حاصل ہو ئی ہے بابا فرید الدین گنج شکر فرماتے ہیں۔

دوران سیاحت میری ملاقات ایک دفعہ غزنی شہر میں ایک باکمال بزرگ سے ہو ئی جو عبادت الٰہی کے ساتھ عشق الٰہی کے دریا میں غرق تھا جن کی زندگی کا ہرلمحہ عبادت میں گزرتا تھا میں چھ ماہ اِن کے پاس رہا اِس دوران اُس بزرگ نے دنیا داری کی ایک بھی بات نہ کی صبح شام گر یہ زاری کر تے گر یہ زاری اِس قدر زیادہ کہ جسم پر رعشہ طاری ہو جاتا اور نیم بے ہوش ہو کر گر جاتے ان کا یہ عمل برسوں سے جاری تھا میرے پوچھنے پر بزرگ نے بتایا تیس برس پہلے میرے پاس ایک درویش آیا تو اُس نے میرے ساتھ دنیا داری کی باتیں شروع کر دیں اور میں بھی اُس کی باتوں میں شامل ہو گیا اِسی دوران غیب سے آواز آئی اے میری محبت کے دعوے دار یا تو دنیا کی بات چلے گی یا پھر ہماری ‘ یہ سنتے ہیں میں عرق ندامت میں غرق ہو گیا وہ دن اور آج کا دن میں شرمندگی کی وجہ سے اپنی غلطی پر پچھتا رہا ہو ں مسلسل گر یہ زاری کر رہا ہوں کہ اللہ تعالی میری اُس غلطی کو معاف کر دے اب میںاس شرمندگی میں دن رات گر یہ زاری کرتا ہوں کہ میں تو خدا کی محبت کا دعوے دار تھا لیکن روز محشراگر خدا نے مُجھ سے یہ پوچھ لیا تو میں کیا منہ دکھائوں گا اُس دن سے آج تک اپنی غلطی کی آگ میں بھسم ہو رہا ہوں کہ میں نے کیوں دنیا داری کی باتیں کیں کاش میں نہ کرتا وہ وقت بھی عبادت اور ذکر الٰہی میں گزار دیتا عبادت ریاضت محبت عشق کا یہ مقام ہے کہ حق تعالی پھر ایسے بندوں کو شہرت دوام عطا کر تا ہے یہ تقوے کے اُس مقام پر ہو تے ہیں کہ بڑے سے بڑا عالم دین صر ف باتیں کر سکتا ہے عمل نہیں یہ تو مولا علی کے اُس فرمان پر قائم ہو تے ہیں کہ آپ فرماتے ہیں کہ کسی چلتے دریا میں شراب کا ایک قطرہ گر جائے اور وہ پانی وہاں سے گزر جائے پھر دریا کا پانی خشک ہو جائے اور وہاں پر گھاس اُگ آئے اُس گھاس کا ایک تنکا اگر میرا گھوڑا کھا لے تو میں کبھی بھی اُس گھوڑے پر سواری نہ کروں ‘ اولیاء کرام اِس طرح کے مظاہرے ہر دور میں کرتے آئے ہیں بابا فرید مسعو د گنج شکر بھی ایسے ہی باکمال بزرگ تھے جنہوں نے عبادت مجاہدے اور زہد کے سارے ریکارڈ تو ڑ ڈالے۔

پچانوے سال کی زندگی میں ہر سانس اطاعت الٰہی اور مخلوق خدا کی خدمت میں گزار دی پھر خالق کائنات تحفے کے طور پر ایسے بزرگوں کو قیامت تک کے لیے شہرت کے آسمان پر روشن ستارے کی طرح روشن کر دینا ہے آپ کے مزار پر بہشتی دروازہ بھی حق تعالی کا انعام خاص ہے ایک مرتبہ آپ کے مرشد خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے فرمایا فرید تیرے مرقد میں ایک ایسا درواز ہ ہو گا جو اُس سے گزر جائے گا اُس پر آتش دوزخ حرام ہو جائے گی اور یہ دروازہ روز محشر تک بابرکت رہے گا جب آپ اِس جہان فانی سے رخصت کر گئے تو حضرت نظام الدین اولیا نے حالت مراقبہ میں منظر دیکھاجناب سرور دوجہاں محبوب خداۖ بمعہ اصحاب کبار آل اظہار اور اولیا ء حق روضہ پاک کے شرقی دروازے سے باہر نکل کر روضہ پاک کے جنوب مشرقی گو شہ پر تشریف فرما ہیں اور فرما رہے ہیں اے نظام تو بآواز اعلان کر دے اور بشارت دے کہ تمام جن و انس جو بھی اِس دروازے سے گزر جائے گا ارمان پائے گا اور پھر سرتاج الانبیاء ۖ نے فرمایا داخل ہو اجو اِس دروازے سے اُس نے امان پائی ‘ بعد میں جہاں پر آقا کریم ۖ کے قدموں کے نشان تھے وہاں پر احترام کے لیے چھوٹا حجرہ تعمیر کر دیا گیا جو آج بھی حجرہ قدم مبارک کے نام سے مشہور ہے اور آج بھی موجود ہے اور پھر شافع محشر رسول کریم ۖ کے حکم پر حضرت نظام الدین اولیاء نے مینار مسجد پر چڑھ کر تین مرتبہ دستک دی ۔ ( آج بھی حضرت نظام الدین اولیاء کی پیروی میں بہشتی دروازہ کھولنے کے وقت اُسی طرح تالیاں بجائی جاتی ہیں اورپھر بلند آواز سے سرور دو جہاں ۖ کا حکم سنایا جاتا ہے آقا کریم ۖ کا حکم سنانے کی دیر تھی موجود اولیا ء کرام اور مریدین حق فرید یا فرید کے نعرے لگاتے اور دوڑتے ہو ئے بہشتی دروازے سے داخل ہو کر نو ری دروازہ سے باہر نکلنے لگے اُس دن کے بعد صدیوں پر صدیاں گزرتی چلی گئیں صدیوں کی آندھی بھی اِس والہانہ محبت کے رنگ کو دھند لا نہ سکی اُس واقعہ کی پیروی میں حق فرید کے دیونے آج بھی حق فرید یا فرید کے نعرے مارتے ہوئے بہشتی دروازے سے گزرتے چلے جاتے ہیں۔

وقت دوڑتا رہا لیکن خدا کے اِس محبوب بندے کے دیوانوں پروانوں کی تعداد کم ہو نے کی بجائے اور بھی بڑھتی جارہی ہے اِس کی زندہ مثال ہم ہر سال عرس مبارک پر دیوانوں کی میلوں طویل قطاریں دیکھتے ہیں جو گھنٹوں لائنوں میں لگ کر گھنٹوں انتظار کے بعد چہروں پر عقیدت کے پھول سجائے ہونٹوں پر حق فریدیا فرید کے نعرے بلند کر تے بہشتی دروازے سے گزرتے چلے جاتے ہیں یہاں بھی خالق کائنات کی وہی ادا نظر آتی ہے کہ وہ اپنے محبوب بندوں کو شہرت دوام عطا کر تا ہے شہنشاہ دوعالم ۖ اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے فرمان کے مطابق ہر سال عرس کے موقع پر بہشتی دروازہ دو راتوں کے لیے کھولا جاتا ہے سوا سات سو سالوں سے بابا فرید کے دیوانے بہشتی دروازے سے گزرتے ہیں۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org