تاریخ دعوت عزیمت کی داستان: حصہ سوم

Maulana Abul Hasan Ali Nadwi

Maulana Abul Hasan Ali Nadwi

تحریر : میر افسر امان

جیسا کہ اس سلسلے کے پچھلے دو کالموں میں عرض کر چکے ہیں کہ مولانا سید الحسن علی ندوی المروف” علی میاں” اسلام اور تاریخ اسلام پر کئی کتابیں تصنیف کرچکے ہیں۔ سعودی حکومت کا شاہ سعود بین الالقوامی انعام یافتہ ہیں۔ تاریخ دعوت عزیمت کے حصہ سوم میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا اور حضرت مخدوم شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کی سوانح حیات، صفات و کمالت، تجدیدی وا صلاحی کارناموں کا تذکرہ ہے۔

لکھتے ہیں کہ چھٹی صدی ہجری اسلامی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس صدی کے اوائل میںنیم وحشی تاتاریوں نے عالم اسلام پریورش کی۔ ملک کے ملک ان کی بر بریت اور وحشیانہ مظالم سے تاراج اور بڑے بڑے نامی گرامی شہر جو کبھی علم و تہذیب کے علم برادر اور مدارس و خانقاہوں سے یکسر سر گلزار ہو رہے تھے، بخارا، سمر قند، رے، ہمدان، مرو، نیشا پور، خوارزم اور بلا آ خر مرکز خلافت دارالسلام بغداد اس فتنہ جہاں سوز کی لپیٹ میں آ گیااور قدیم تہذیب کا مدفن بن کر رہ گیا۔ عالم اسلام میںصرف ہندوستان ہی ایسا ملک تھا جو اس فتنہ سے محفوظ رہ گیاتھا۔ جہاں پر جوش ترکی ا لنسل خاندانوں کی حکومت تھی۔ محمد بن قاسم ثقفی نے ٩٣ھ میں سندھ سے ملتان تک فتح کیا تھا۔ سلطان علائوالدین خلجی کے عید میں چنگیزی مغلوں نے پانچ بارحملے کیے۔ سلطان شہاب الدین غوری نے ٦٠٢ھ میں ہندوستان میں اسلامی سلطنت قائم کی۔

لکھتے ہیں ان حالات میں عالم اسلام کے بہترین خاندان، ایران، ترکستان اور عراق کی طرف سے ہندوستان میں آئے۔ ہندوستان کی روحانی تسخیر حضرت معین الدین چشتی نے ٦٢٧ھ کی۔ہندوستان میں جو اسلام کے لیے کام ہوا اس میں چشتیوں حق قدیم ہے۔ مولانا غلام علی آزاد نے صحیح لکھا ہے کہ:۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بزرگان سلسلہ چشت کا ملک ہندوستان پر حق قدیم ہے۔ صاحب سیر الا قطاب کا لکھناہے کہ:۔ہندوستان مین ان کے دم قدم کی برکت سے اسلام کی اشاعت ہوئی ۔ کفر کی ظلمت جہاں سے کا فور ہوئی۔ لکھتے ہیںخواجہ قطب الدین کاکی نے شیخ کبیر کے حکم سے دہلی کو اپنا مرکز بنایا۔ دربار سے دور رہے۔ارشاد و تربیت کا کام کیا۔ سلطان شمس الدین ہفتہ میں دو بار حاضری دیتا۔آپ کے شاگرد دس (١٠)کی تعداد میں تھے۔٦٣٣ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ لکھتے ہیں کہ جس طرح حضرت خواجہ معین الدین چشتی ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے موسس و بانی ہیں۔ خواجہ فریدالدین گنج شکر اس کے مجدد اور اس سلسلہ کے آدم ثانی ہیں۔ان کے شاگردوں کی وجہ سے یہ سلسلہ اب بھی زندہ ہے۔

حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر کا نام مسعود، لقب فریدالدین تھا۔ عام طور پر” شکر گنج ”کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ نسبتاً فاروقی ہیں۔ جد بزرگوار قاضی شعیب، تاتاریوں کے ہنگامہ میں کابل سے لاہور تشریف لائے تھے۔ پنجاب کے شہر پاک پتن میں قیام کیا۔ تنگی اور عسرت وفاقہ کے ساتھ زندگی گزاری۔پیلو کے پھل ابال لیے جاتے اور ان پر کچھ نمک ڈال کر فقر اء کو تقسیم کر دیے جاتے اور خود بھی یہ تناول فرماتے۔ کچھ دونوں بعد حالت درست ہو گئی۔سطان ناصرلدین کی طرف سے کچھ نقد اور چار گائوں جا گیر کا فرمان ملا۔ نقد لے کر اسی وقت درویشوں میں تقسیم کر دیا اور فرمان جاگیرچار گائوں واپس کر دیا۔ ان کا شیخ الاسلام شیخ بہاوالدین زکریہ ملتانی جو سلسلہ سہردردیہ کے نامور شیخ اور ہندوستان کے مشہور روحانی پیشوائوں اور داعیوں میںگزرے ہیں، گہراتعلق تھا۔ ان کے ہم عصر اور ہم عمر تھا۔دونوں میں دوستانہ تعلقات تھے ۔عشاء کے نماز کے بعد ٥ محرم ٦٦٤ھ کو وفات پائی۔

سلطان المشاشائخ حضرت خواجہ نظام الدین جن نام محمد تھا، کے متعلق لکھتے ہیں کہ لقب نظام الدین، سولہ سال کی عمر میں دہلی آئے۔ شمس الدین خوارزمی کے درس وتدریس کے حلقہ میں شامل ہوئے۔ حضرت خواجہ نے اپنی ذہانت مناسبت خدا داد اور محنت سے اپنے رفقاء کے درمیان علمی امتیاز پیدا کر لیا۔حدیث کا علم مشہور زمانہ محدث شیخ محمد کمال الدین زاہدسے حاصل کیا۔ پاک پتن شیخ کبیر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ کبیر نے اپنے شاگرد کی بڑی خاطر فرمائی۔ کہا کہ اس شاگرد کے لیے چارپائی بچھائی جائے۔

کہاکہ میں چارپائی پر کیسے آرام کرو جب باقی شاگرد تو زمین پر سوتے ہیں؟ منتظم نے کہا کہ اُستاد کے حکم کی تکمیل کرنی ہے یا اپنی مرضی ۔جائو اور چار پر سو جائو۔ بیس سال کی عمر میں حضرت شیخ کبیر سے سے بعیت کر لی۔شیخ کبیر سے درس لیا۔ بعد میں درس کے دنوں کا یاد کر کے بہت ہی تعریف کرتے تھے
۔شیخ کبیرسے اجازت لے کر دہلی روانہ ہوئے۔ اہل ہندوستان کی خدمت کے لیے دہلی قیام کیا۔امیر خسرو بھی شیخ کبیر کے شاگرد تھے۔ شیخ کبیر کی وفات ٧٢٥ھ کو ہوئی۔

”علی میاں”خاتمہ کلام میں لکھتے ہیں کہ ایک تلخ حقیقت بیان کرنا ضروری ہے۔سلسلہ چشتیہ میں پھر انحطاط شروع ہوا۔نمبر١:۔وحدت الوجود کے عقیدے میں غلو اس کی اشاعت کا

٢
انہماک۔نمبر٢:۔ محافل سماع کی کثرت، وجد، و، رقص کا زور۔نمبر٣:۔ اعراس کا اہتمام اور ان کی رونق و گرم بازاری جو شری حدود وقیود سے بے نیازی۔مزا میر و آلات سماع داخل طریق بن گئے۔جو لوگوں کا سر، دنیا کے آستانوں سے ہٹاکر اللہ کے آساتنے پر آٹکانا تھا وہ الٹ ہوگیا۔ اس کے نتیجہ میںپھر تین نمائیں عناصر ترکیبی رہ گئے۔وحدت الوجود کے باریک و دقیق مضامین کا اعلان ا ور تذکرہ۔ توحید لفظ کے معنی محدود ہو گئے۔شریعت و طریقت دو الگ الک کوچے تسلیم کر لیے گئے۔

شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کے متعلق لکھتے ہیں کہ نام احمد، شرف الدین لقب، مخدوم الملک بہاری خطاب، سلسلہ نسب زبیر بن عبدالمطلب تک جاتا ہے۔ اس طرح خاندان ہاشمی قریشی ہے۔ بہار کے قصبہ منیر میں پیدا ہوئے۔ وہاں سے ہی ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی۔ پھر دہلی تشریف لائے۔دہلی سے پانی پت آئے۔پھر واپس وطن تشریف لائے۔واپسی سے پہلے ،بھائی شیخ جیل الدین نے خواجہ نجیب الدین فردوسی کا تذکرہ کیا۔ توبھائی سے کہا کہ جو دہلی کا قطب تھا اس نے پتے دے کر ہمیں واپس کر دیا۔ اب دوسرے کے پاس کیا جائیں۔بھائی کے زور دینے پرجب فردوسی کے پاس پہنچے، تو منہ میں پان تھا۔فردوسیٰ نے کہا کہ منہ میں پان، رومال میں پان کے پتے اور کہتے ہیں کہ ہم شیخ ہے؟یہ سنتے ہی منہ سے پان نکال دیا۔ کچھ دقت گزارنے کے بعد بعیت کی درخواست کی۔ فردوسیٰ خواجہ نے قبول فرمایا اورداخلِ سلسلہ فردوسیہ کر لیا۔ اجازت دے کر رخصت کیا۔ہندوستان میں سلسلہ فردوسیہ کے مشائخ ِکبار میں شیخ خواجہ نجم الدین کبریٰ شامل تھے۔

ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نام احمد بن عمر تھا۔ خوارزم وطن تھا۔آپ کا طریقہ ”طریقہ کبریہ” کہلاتا ہے۔ یہ تین طریقوں سے ہندوستان پہنچا۔ امیر سید علی بن الشہاب ہمدانی کشمیری، جن کی تبلیغ اور مساعی سے جمیلہ سے، کشمیر کی پیشتر آبادی مسلمان ہوئی۔اس سلسلہ کے ایک بڑے شیخ مولانا یعقوب صرفی کشمیری جن کی شاگرد حضرت مجدد الف ثانی ہیں۔ امیر کبیر شیخ الاسلام سید قطب محمد مدنی تھے۔ شیخ شرف الدین منیری کے متعلق لکھتے ہیں کہ شیخ منیری راجگیر کے جنگل میں ریاضت کے لیے بارہ سال رہے۔ اس وقت اس جنگل میںہندو جوگی بھی جابجا خلوت نشین تھے۔ ان جوگیوں کے ساتھ آپ کے متعدد مکالمے منقول ہیں۔ گوتم بدھ نے بھی برسوں جہاں بیٹھ کر دھیان جمایا۔ شیخ منیری نے کئی کتابیں اور مکتوب لکھے، جو اب ناپید ہیں۔آپ نے ٧٨٢ھ میں وفات پائی۔ان کی کتابیں جو دو ڈھائی سوسال پہلے لکھی گئیں جن میں ”توحید شہودی” یا ” وحدةالشہود” کا نظریہ ہے۔ اس کا چرچا گیارھویں صدی میں ہوا۔ مجدد الف ثانی نے ”وحدةالوجود” کے متوازی” وحدت الشہود” اور اس کی وضاحت پیش کی۔

صاحبو! ہم نے آپ کے سامنے ”تاریخ دعوت عزیمت ” کتاب سے گم شدہ تاریخ اور اسلام کو زندہ رکھنے اور خدمت کرنے والے اسلاف کی تاریخ دعوت عزیمت کی داستان پیش کی۔ ہمارے اسلاف بادشائوں سے دور رہتے تھے۔ وہ ہندوستان میں کروڑوں ہندوئوں کو مسلمان بنا گئے۔ مگر بعد میں ان کے شاگردوں نے جو کچھ کیا وہ سید ابو الحسن المعروف” علی میاں” نے اوپر بیان کر دیا۔ہمیں پھر سے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کرنا پڑھے گا ۔تب جا کر مسلمانوں کی موجود ذہنی پستی اور صلیبیوں کی سازششوں سے چٹکارامل سکتا ہے۔ تب ہی پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی جہادی قائم ہو سکتی ہے اور کشمیر پاکستان میں شامل ہو سکتا ہے۔اللہ مسلمانوں کی مدد فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان