ہانگ کانگ میں مظاہرے، آنسو گیس، فائرنگ: پارلیمان کا محاصرہ

Protests in Hong Kong

Protests in Hong Kong

ہانگ کانگ (جیوڈیسک) چین کے خصوصی انتظامی علاقے ہانگ کانگ میں ہزارہا شہریوں نے ایک مجوزہ متنازعہ قانون کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے علاقائی پارلیمان کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ پولیس نے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال بھی کیا۔

ہانگ کانگ، جو ماضی میں ایک برطانوی نوآبادی بھی رہا ہے، ‘ایک ملک دو نظام‘ کے سیاسی نظریے کے تحت کمیونسٹ چین کا ایک خصوصی انتظامی علاقہ ہے، جہاں سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے لیکن جہاں کی علاقائی انتظامیہ سیاسی طور پر بیجنگ کی ہمدرد اور ہم خیال ہے۔

عوامی جمہوریہ چین کے اس خصوصی علاقے میں مقامی انتظامیہ نے پارلیمان میں ایک ایسا مسودہ قانون پیش کر رکھا ہے، جس پر ایک رائے شماری ہو چکی ہے اور دوسری آج بدھ بارہ جون کو ہونا تھی۔ یہ قانونی بل ہانگ کانگ سے مجرموں اور ملزموں کی داخلی ملک بدری کے بعد انہیں بیجنگ کے حوالے کرنے سے متعلق ہے، جس کی اس شہر میں زبردست مخالفت کی جا رہی ہے۔

آج بدھ کو جب ہانگ کانگ کی پارلیمان میں اس بل پر دوسری رائے شماری ہونا تھی، اس سے پہلے کل رات ہی سے ہزارہا شہریوں نے پارلیمان کو جانے والے تمام راستے بند کر کے ایک طرح سے اس مقامی مقننہ کا محاصرہ اور ناکہ بندی کر دی تھی۔ اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی، تو ریاستی طاقت کے اس استعمال سے صورت حال واضح طور پر پرتشدد رنگ اختیار کر گئی۔

اس دوران بہت بڑی تعداد میں تعینات پولیس کی نفری کو صورت حال کو قابو میں لانے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے استعمال کے علاوہ ربڑ کی گولیوں سے فائرنگ بھی کرنا پڑی۔ ساتھ ہی ہانگ کانگ کی پارلیمان کو جانے والے تمام راستے بند ہونے کی وجہ سے جب ارکان پارلیمان ایوان تک پہنچ ہی نہ سکے تو اس متنازعہ قانونی مسودے پر دوسری رائے شماری مؤخر کرنا پڑ گئی۔

اب تک یہ واضح نہیں کہ یہ رائے شماری آئندہ کب ہو گی۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ سولہ جون یعنی آئندہ اتوار کے روز ہانگ کانگ میں لاکھوں مقامی شہری اس متنازعہ قانون کے خلاف احتجاج میں حصہ لیں گے۔ اس احتجاج کے لیے اتوار سولہ جون کی تاریخ اس لیے رکھی گئی ہے کہ علاقائی پارلیمان بیس جون تک یہ قانونی بل منظور کر لینے کا ارادہ رکھتی تھی۔ لیکن اب اس نظام الاوقات پر عمل ہو سکے گا یا نہیں، یہ بات قطعی غیر یقینی ہے۔

اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہانگ کانگ کی پارلیمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر منتخب کردہ مقننہ نہیں ہے اور یہ علاقائی قانون ساز ادارہ چین کے اس خطے کی بیجنگ نواز انتظامیہ کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے داخلی ملک بدری یا مجرموں اور ملزمان کے ہانگ کانگ سے بیجنگ کے حوالے کیے جانے کا قانون منظور تو کرنا چاہتا ہے مگر اس شہر کے عوام اس کے شدید مخالف ہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ اگر ہانگ کانگ بھی چین ہی کا حصہ ہے، تو پھر ہانگ کانگ کے عوام کو اس مجوزہ قانون کی منظوری پر شدید اعتراضات کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی کی سخت گیر حکومت ہانگ کانگ کے سوا باقی ماندہ چین میں تو بہت کڑی سیاسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے لیکن ہانگ کانگ میں استثنائی صورت حال کے باعث وہاں اس کا اختیار اتنا نہیں چلتا۔

دوسرے یہ کہ ہانگ کانگ میں، جہاں جمہوری اقدار باقی ماندہ چین کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں، عوام چاہتے ہیں کہ بیجنگ میں حکمران، جو ناقدین کے مطابق حکومت پر تنقید کرنے والے کسی بھی فرد کی آزادیوں کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں یہ اختیار حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ ہانگ کانگ میں پہلے سیاسی منحرفین کو مختلف مقدمات میں جواب دہ بنایا جائے اور پھر جن کے خلاف بیجنگ میں قانونی کارروائی کی جانا ہو، انہیں ہانگ کانگ سے ملک بدر کر کے بیجنگ کے حوالے کر دیا جائے۔