ہانگ کانگ: میڈیا ٹائیکون جمی لائی کو رہا کر دیا گیا

Jimmy Lai

Jimmy Lai

ہانگ کانگ (اصل میڈیا ڈیسک) ہانگ کانگ کی معروف کاروباری شخصیت اور میڈیا ٹائیکون جمی لائی کو حکام نے گزشتہ پیر کو گرفتار کیا تھا۔ ان کی رہائی پر ان کے درجنوں حامیوں نے معروف اخبار ‘ایپل ڈیلی’ کی کاپیاں ہاتھوں میں تھام رکھی تھیں۔

ہانگ کانگ کی معروف جمہوریت نواز میڈیا شخصیت جمی لائی کو بدھ کو مقامی وقت کے مطابق علی الصبح رہا کردیا گیا ہے۔ انہیں پیر 10 اگست کو شہر کے نئے متنازعہ سکیورٹی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ہانگ کانگ کی معروف میڈیا کمپنی ‘نیکسٹ ڈیجیٹل’ کے مالک ہیں جو شہر کا معروف اخبار ‘ایپل ڈیلی’ بھی شائع کرتی ہے۔

رہائی کے بعد جب جمی لائی پولیس اسٹیشن سے باہر نکل رہے تھے تو ان کے حامی بڑی تعداد میں موجو دتھے، جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں اخبار ‘ایپل ڈیلی’ اٹھا رکھا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اخبار کو فضا میں بلند کرتے ہوئے نعرہ لگا یا کہ وہ ایپل ڈیلی کی آخری حد تک حمایت کرتے رہیں گے۔

اخبار ‘ساؤتھ چائنا مورننگ پوسٹ’ کے مطابق 71 سالہ معروف تاجر جمی لائی کو اپنی ضمانت کے لیے بعض سکیورٹی ڈپازٹ کے علاوہ 37 ہزار پانچ سو ڈالر کی رقم مچلکے کے طور پر جمع کرنی پڑی ہے۔ جمی لائی ہانگ کانگ میں جمہوریت کی حمایت کرنے والوں میں آگے آگے رہے ہیں۔

پیر کے روز چین نے نئے سکیورٹی قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں جن 10 افراد کو گرفتار کیا گیاتھا جمی ان میں سے ایک تھے۔ گزشتہ ماہ اس قانون کے نفاذ کے بعد سے وہ شہر کی ایسی پہلی معروف شخصیت تھے جنہیں اس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ انہیں غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ملی بھگت کرنے اور جعل سازی کے الزام میں متنازعہ سکیورٹی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

سنہ 1989 میں چار جون کے روز بیجنگ کی تائنامین اسکوائر پر جمہوریت حامی مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کے واقعے کے بعد سے ہی جمی لائی ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حق میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ لیکن چین کا سرکاری میڈیا چین کو تباہ کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں کے ساتھ ملی بھگت کرنے میں انہیں ”سیاہ ہاتھ” سے تعبیر کرتا رہا ہے۔ جمی لائی اور ہانگ کانگ کے 14 دیگر جمہوریت حامی شخصیات کو پہلے ہی سے، گزشتہ برس غیر قانونی سمجھے جانے والے حکومت مخالف مظاہروں کو منظم کرنے اور ان میں حصہ لینے جیسے الزامات کا سامنا ہے۔

ہانگ کانگ میں جمہوریت حامی گروپوں کے جانب سے حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ کافی دنوں سے جاری تھا اور اسی پس منظر میں حکومت نے اس برس جون کے اواخر میں سکیورٹی سے متعلق ایک نیا قانون نافذ کیا جس پر عالمی برادری نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نیم خود مختار علاقے کی خود مختاری پامال ہوگی۔

سکیورٹی سے متعلق چین نے جو سخت متنازعہ قانون نافذکیا ہے اس کے تحت چینی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے، بیرونی ممالک کی افواج کے ساتھ کسی بھی طرح کی ملی بھگت کرنے اور دہشتگردانہ کارروائیوں کو سنگین جرم کے دائرے میں رکھا گیا ہے۔ نئے سکیورٹی قانون کے تحت پولیس کو اب ایسے وسیع تر اختیارات حاصل ہیں کہ وہ بغیر پیشگی وارنٹ کے کہیں بھی تلاشی لے سکتی ہے اور ایسے تمام پیغامات و میسیجز کو بھی انٹرنیٹ فراہم کرنے والے اداروں اور کمپنیوں کو ہٹانے کا حکم دے سکتی ہے جو اس قانون کے منافی ہوں۔