کیسا حسن تھا

Beauty

Beauty

ابھی تو آنکھ ہی کھُلی تھی رخ باطن کی
عمر زنداں کی دیواروں پہ سر پٹکتی رہی

کیسا حسن تھا جو بن گیا عذاب جاں
زندگی پنجہء استبداد میں سسکتی رہی

شمع بھی جلتی ر ہی دل میں آزادی کی
اور بار بار ظلم کی پھونکوں سے بجھتی رہی

آزمائشوں نے بھی ہر دم پژمردہ رکھا
کلی اُمید بھی اندھیروں میں کھلتی رہی

خوش نصیبی نے تو دیکھا کبھی کبھی پلٹ کر
بد نصیبی مگر روز گلے ملتی رہی

تحریر: مسز جمشید خاکوانی