انسانیت کی تذلیل

Accountability

Accountability

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر

بانیانِ ”نیا پاکستان” کے کارناموں کی فہرست اتنی طویل کہ اِس پر پورا ”تھیسز” لکھنے کی ضرورت۔ وزارتِ تعلیم پنجاب نے سکولوں کے لیے جن کتابوں کا انتخاب کیا اُس پر افلاطون اور ارسطو کی روحیں بھی عَش عَش کر اُٹھی ہوںگی لیکن اِس پر تبصرے سے پہلے پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ جسے بِلاشبہ ”زبانِ خلق ” کہا جا سکتاہے 87 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ بنچ کے سربراہ جسٹس مقبول باقر نے لکھاہے جسے بلاخوفِ تردید نیب کے خلاف چارج شیٹ کہا جا سکتاہے۔

محترم جسٹس مقبول باقر نے لکھا ” موجودہ کیس آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی پامالی، آزادی سے غیرقانونی محرومی اور انسانی وقار کو مکمل طور پر اہمیت نہ دینے کی بدترین مثال ہے”۔ فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ احتساب یک طرفہ ہو رہاہے۔ ایک طرف تو لوگوں کو مہینوں، برسوں جیلوں میں ڈال دیا جاتاہے دوسری طرف بڑے بڑے مالی الزامات پر بھی کچھ نہیں کہاجاتا۔ عرض ہے کہ نیب کا ادارہ آمر پرویزمشرف نے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیا جس کا پہلا سربراہ فوجی جرنیل تھا۔ اِسی نیب کی بدولت ق لیگ معرضِ وجود میں آئی۔ تب سے اب تک حکومت پیپلزپارٹی کی ہو یا نوازلیگ کی یا پھر تحریکِ انصاف کی، کسی نے بھی نہ تو احتساب کے اِس ادارے میں اصلاحات کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی قابلِ قبول احتسابی ادارہ بنانے کی کوشش۔ وجہ یہ کہ ہرحکومت نے مقدوربھر اِس ادارے کو اپنی مضبوطی کے لیے ہی استعمال کیا۔ تحریکِ انصاف نے مگر ساری حدیں ہی پھلانگ دیں۔ اب حکمرانوں کے اشارے پر نیب متحرک اور بغیر کسی ثبوت کے حکومت مخالف لوگوں کو گرفتار کرنا اُس کا وتیرہ بن چکا۔طُرفہ تماشہ یہ کہ حکومتی وزراء اور مشیر پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ اب کس کی باری ہے۔

اُن کا کہا مَن وعَن درست ثابت ہوتاہے۔ اگر حکومتی اکابرین میں تھوڑی سی بھی شرم وحیا ہوتی تو نیب کی ساکھ یوں مجروح نہ ہوتی اور اگر نیب میں بھی تھوڑی سی شرم وحیا ہوتی تو وہ کسی بے گناہ شخص کو گرفتار کرنے سے توگریزکرتی جس کے دعوے حکومتی کارندے سرِعام کرتے رہتے ہیں۔جو سیاسی جماعت بھی اپوزیشن میں ہوتی ہے، نیب کا ڈنڈا صرف اُسی پر چلتاہے۔ حکمران جماعت جتنے جی چاہے گُل کھلائے، اُس سے صرفِ نظر ہی کیا جاتاہے۔ انتہائی تکلیف دہ امر تو یہ ہے کہ موجودہ چیئرمین نیب اعلیٰ ترین عدالت کے سینئرترین جسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے لیکن بطور چیئرمین نیب اُن کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان ہی رہی۔ جو شخص خود یہ کہے کہ اگرتحریکِ انصاف پر ہاتھ ڈالاگیا تو حکومت گِر جائے گی، اُس سے انصاف کی توقع عبث؟۔ اُنہوں نے یہ تو فرمادیا کہ ہواؤں کا رُخ بدل رہاہے لیکن قوم منتظر ہی رہی کہ ہواؤں کا رُخ کب بدلے گا۔ فیصلے میں بجاطور پر لکھا گیا کہ نیب وفاداریاں تبدیل کرانے، سیاسی جماعتوں کو توڑنے، مخالفین کا بازو مروڑنے اور اُن کو سبق سکھانے کے لیے استعمال ہوئی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ بدقسمتی سے ملک کو قائم ہونے کے 72 سال اور آئین کے نفاذ کے 47 سال بعد بھی ہم اِس کے نظریات کو حقیقی معنوں میں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اِس ملک کے عوام کو مسلسل آئینی حقوق سے محروم رکھاگیا۔ مساوات، عدل اور جمہوری روایات کے لیے برداشت اور احترام کی کھُلے عام دھجیاں بکھیری گئیں۔ ہمارے معاشرے میں ہٹ دھرمی، عدم برداشت، اقرباپروری، نااہلیت، برتری کا غلط احساس، مختلف جانبداریاں، تعصبات اور بدعنوانی پھیل گئی ہیں اور معاشرہ اِن میں ڈوب چکاہے۔ جب بھی آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی کوشش کی گئی، اِنہیں پوری طاقت سے کچل دیاگیا۔۔۔۔۔ عرض ہے کہ اعلیٰ ترین عدلیہ کایہ فیصلہ عدل کے ماتھے کا جھومرہے جس میں لگی لپٹی رکھے بغیروہ سب کچھ لکھ دیا جس کی اِس اعلیٰ ترین ادارے سے توقع کی جاتی ہے لیکن ”خو گرِ حمد سے تھوڑا سا گِلہ بھی سُن لے” کے مصداق یہ بھی اِس معزز ترین عدالت کے فیصلے تھے جنہوں نے قوم کو یہ دن دکھائے۔ جسٹس منیر کا ”نظریۂ ضرورت” ہر آمر کے لیے استعمال ہوا۔

ضیاء الحق اور پرویزمشرف نے اِسی نظریۂ ضرورت کی چھتری تلے2 عشروںسے زائد حکومت کی۔ اِسی معززترین ایوانِ عدل سے ذوالفقارعلی بھٹو کو تختۂ دار پہ لٹکایا گیا اور بعدازاں بھٹو کو پھانسی دینے والے معززبنچ کے ایک رُکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے غلط فیصلے کا اقرار بھی کیا لیکن پھربھی قوم نے اپنی ساری اُمیدیں عدل ہی سے وابستہ رکھیں۔ جب چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کو آمر پرویزمشرف نے گھر بھیجنے کی سعی کی اور افتخارمحمد چودھری اکیلے ہی گھر سے سپریم کورٹ جانے کے لیے نکلے تو ایسا کارواںبنا جس کی تاریخِ پاکستان میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پوری قوم نے دیدہ ودِل فرشِ راہ کیے اور وہ لوگ جنہیں چیف جسٹس کے معنی تک معلوم نہیں تھے، وہ بھی گھنٹوں بلکہ پہروں اُن کے استقبال میں ایستادہ رہے۔ تسلیم کہ ہردَور میں عدلیہ کی غالب اکثریت نے ضمیر کا سودا نہیں کیا لیکن لاریب کچھ عادلوں نے قوم کا عدلیہ پر اعتماد متزلزل کرنے کی کوشش بھی کی۔

سپریم کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میںلکھا کہ یہ کیس انسانیت کی تذلیل کی بدترین مثال ہے۔ عوام میں نیب کی ساکھ اور غیرجانبداری مجروح ہوچکی ہے۔ یورپی یونین نے بھی نیب کے جانبدارانہ کردار پر سوال اُٹھا دیئے ہیں۔جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ یا تونیب خراب ہے یا اہلیت کا فقدان، دونوں صورتوں میں معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کے بعد کم از کم چیئرمین نیب کا تو اپنی سیٹ پر براجماں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ معروف ایڈووکیٹ حامدخاں نے کہاکہ چیئرمین نیب کو مستعفی ہونا چاہیے۔ اُنہوں نے تو چیئرمین نیب کے ماضی کے کردار پربھی سوال اُٹھادیا۔ اِس کے باوجود ہمیں یقین کہ چیئرمین صاحب اپنی کرسی سے چمٹے رہیںگے۔

اب ایک نظر پنجاب کے سکولوں کے لیے کُتب کی خریداری پرجس کا ذکر ہم نے کالم کے آغاز میں کیاتھا۔ برطانوی ادارے ڈیفڈ (ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ) نے پنجاب میں سرکاری سکولوں کی بہتری کے لیے 3 کروڑ 50 لاکھ پاؤنڈ (تقریباََ 3 ارب روپے) کا فنڈ جاری کیا جو کتابوں کی خریداری اور فرنیچر وغیرہ کے لیے مختص تھا۔ 24 مئی 2019ء کو پنجاب کے وزیرِتعلیم ڈاکٹر مراد راس کی زیرِصدارت اجلاس ہوا جس میں ہر ضلعے کے چالیس، چالیس سکولوں کا انتخاب کیا گیاجہاں کتابیں فراہم کی جانی تھیں۔ حصولِ مقصد کے لیے ایک کنسلٹنسی فرم کا انتخاب کیا گیاجسے کتابوں کے انتخاب کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اِس فرم نے کتابوں کی جوفہرست پیش کی، اُسے من وعن تسلیم کر لیاگیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اِس فرم کا تعلق ایڈورٹائیزنگ سے ہے اور اِسے کسی بھی سطح کی کتابوں کے انتخاب کا کوئی تجربہ نہیں۔

اِسی کمپنی نے 4 پبلشرزکی کتابوں کا انتخاب کیا۔ اِسے چھوڑیں کہ یہ سارا پراسس کیسے مکمل ہوا اور اِس پر کتنے سوالیہ نشان ہیں، اصل سوال تو یہ ہے کہ کیا جو کتابیں خریدی جا رہی ہیں کیااُن کا انتخاب درست ہے؟۔پہلی بات تو یہ کہ اِس فہرست میں بچوں کی کتابوں کا کوئی نامور پبلشر شامل ہی نہیں اور دوسری یہ کہ مڈل اور میٹرک کے بچوں کے لیے ایسی مہنگی ترین کُتب خریدی جارہی ہیں جو ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے معیار کی ہیں۔ اِن کُتب کی فہرست میں انگلش اور اُردوکے ناول، شاعری کے دیوان، ہندیاترا اور امراؤ جان ادا جیسے ناول شامل ہیں۔ اِسی فہرست میں مرغ بانی اور پولٹری، اپنا مکان کیسے بنائیںاور فِش فارمنگ جیسی کتابیں بھی شامل ہیں۔ کیا مڈل اور میٹرک کی سطح پر اب امراؤ جان ادا جیسے ناول پڑھائے جائیں گے یا پولٹری اور فِش فارمنگ کے طریقے سکھائے جائیںگے؟۔ حقیقت یہی کہ کچھ لوگوں کو نوازنا مقصودتھا جو نوازا جا رہاہے لیکن اب نہ سہی، آنے والی حکومت میں اِس عجیب و غریب کرپشن کا حساب ضرور لیا جائے گا۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر