آئی ایم ایف کی شرائط پر منظور منی بجٹ میں مہنگی ہونے والی اشیاء

Mini Budget

Mini Budget

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پارلیمنٹ نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے ضمنی مالیاتی (منی بجٹ) بل 2021 کی صورت میں منظور کرلیا، جس کے بعد ادویات، سلائی مشین، درآمدی مصالحہ جات، گاڑیاں، موبائل فون اور بچوں کے دودھ سمیت دیگر 150 اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔

قومی اسمبلی سے منی بجٹ 2021 کی منظوری کے بعد ادویات، اُن کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال، پانچ سو روپے سے زائد مالیت کے 200 گرام سے زیادہ وزن کے حامل بچوں کے دودھ، پیکٹ دہی، پنیر، مکھن، کریم، دیسی گھی، مٹھائی کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔

چھوٹی دکانوں پر فروخت ہونے والی ڈبل روٹی، بن، سوویاں، نان، چپاتی، شیر مال پر تو ٹیکس لاگو نہیں ہوگا مگر ٹیئرون میں شامل بیکریوں، ریسٹورنٹس، فوڈ چینز اور مٹھائی کی دوکانوں پر ان اشیاء کی فروخت پر ٹیکس نافذ ہوگا جبکہ 500 روپے سے زائد مالیت کے فارمولہ دودھ پر 17 فیصد گورنمنٹ سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ درآمدی نیوز پرنٹ، اخبارات، جرائد، کاسمیٹکس، کتابیں، سلائی مشین، امپورٹڈ زندہ جانور اور مرغی پر مزید ٹیکس نافذ کیا جائے گا جبکہ کپاس کے بیج، پولٹری سے متعلق مشینری، اسٹیشنری، سونا، چاندی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔

مِنی بجٹ میں تقریباً 150 اشیا پر سیلز ٹیکس بڑھانے کی منظوری دی گئی ہے، جن میں موبائل فونز پر ٹیکس 10 سے بڑھا کر 15 فیصد کردیا گیا جس سے 7 ارب روپے اضافی ٹیکس حاصل کیے جائیں گے، 1800 سی سی کی مقامی اور ہائبرڈ گاڑیوں پر 8.5 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوگا، 1801 سے 2500 سی سی کی ہائبرڈ گاڑیوں پر 12.75 فیصد ٹیکس عائد ہوگا جبکہ درآمدی الیکٹرک گاڑیوں پر 12.5 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔

درآمدی گاڑیوں پر ٹیکس لگانے کی تجویز

فنانس ترمیمی بل کی منظوری کے بعد درآمدی گاڑیوں پر ٹیکس 5 فیصد سے بڑھ کر 12.5 فیصد عائد ہوگا۔ تمام درآمدی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بدستور قائم رہے گی جبکہ مقامی طور پر تیار کردہ 1300 سی سی کی گاڑی پر ڈھائی فیصد ڈیوٹی عائد ہوگی اس سے پہلے 1300 سی سی کی مقامی گاڑی پر 5 فیصد ڈیوٹی لگانے کی تجویز تھی۔

پاکستان میں تیار ہونے والی 301 سے 2000 سی سی کی گاڑیوں پر 10 کے بجائے 5 فیصد، 2001 سی سی سے اوپر کی مقامی گاڑی پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد ہوگی جبکہ 1800 سی سی کی مقامی اور ہائبرڈ گاڑیوں پر 8.5 فیصد اور 1801 سے 2500 سی سی کی ہائبرڈ گاڑیوں پر 12.75 فیصد اور درآمدی الیکٹرک گاڑیوں پر 12.5 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔

زرعی شعبے میں استعمال ہونے والے مختلف نوعیت کے پلانٹس و مشینری سمیت ، ویجیٹیبل گھی، اسٹیشنری اور پیک فوڈ آئٹمز، انڈے، پولٹری، گوشت، جانوروں کی خوراک کی تیاری میں استعمال ہونے خام مال، گاڑیاں، ٹریکٹرسمیت ایک سوپچاس کے لگ بھگ اشیاء کی قیمتیں بڑھنے کے امکانات ہیں کیونکہ بجٹ میں ان اشیاء پر ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

وفاقی و صوبائی اسپتالوں، خیراتی اسپتالوں، این جی اوز و تعلیمی اداروں، پچاس بیڈ اور اس سے بڑے نجی خیراتی اسپتالوں،اقوام متحدہ کے اداروں، سفارت کاروں و سفارتی مشن سمیت دیگر مراعات یافتہ طبقے کی طرف سے کی جانے والی درآمدات پر ٹیکس سے چھوٹ واپس لینے کی تجویزکی منظوری دید گئی ہے۔

ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کیلئے شیڈول 5، 6، 7، 8اور 9 میں ترامیم منظور کی گئی ہیں۔ اپوزیشن کی تنقید اور عوامی ردعمل پر چھوٹی دوکانوں پر ٹیکس لاگو کرنے کی تجویز واپس لے لی گئی ہے۔

غیر ملکی ڈراموں کی درآمد پر بھی ایڈوانس ٹیکس، کیٹررز، ہوٹلز اور بڑے ریسٹورنٹس پر ٹیکس 7.5 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد، سیب کے علاوہ درآمدی پھلوں، سبزیوں پر 10 فیصد سیلز ٹیکس ، پیکنگ میں فروخت ہونے وا لے درآمدی مصالحہ جات پر 17 فیصد، فلور ملز پر 10 فیصد سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز منظور کی گئی ہے جس سے آٹا بھی مہنگا ہوسکتا ہے۔

ملٹی میڈیا ٹیکس کو بھی 10 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے، بیٹری پر ٹیکس 12 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز منظور کی گئی ہے، اس کے علاوہ ڈیوٹی فری شاپس پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویزمنظور کی گئی ہے۔ ڈاک کے ذریعے پیکٹ ارسال کرنے پر 17 فیصد سیلز ٹیکس کی منظوری دی گئی ہے۔

ضمنی مالیاتی بل میں اکانومی کو ڈیجیٹائز کرنے کیلئے تجویز کردہ اقدامت کی بھی منظوری دی گئی ہے، جس کے تحت سرکاری عہدہ رکھنے والوں کی ٹیکس تفصیل پبلک کی جائے گی، اس کے علاوہ ریئل اسٹیٹ کے شعبے کو دی گئی رعایت جاری رکھنے کی منظوری دی گئی ہے۔

ترمیمی فنانس بل میں کسٹمز، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس قوانین میں ترامیم کر کے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کلکٹر کے اختیارات کم کیے کیے، بل میں گورنر اسٹیٹ بینک کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) تحقیقات کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع کرکے اسے پانچ سال تک بڑھا دیا گیا ہے۔

اوور سیز پاکستانیوں کی جانب سے درآمد کردہ رسانل ویئرنگ ایپرل و دیگر سامان(بیگج)، ملک میں مقامی سطح پر موبائل فون کی تیاری کیلئے درآمد کی جانیوالی پلانٹس و مشینری، اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کی جانب سے درآمد کی جانی والی اشیاء، این جی اوز، تعلیمی اداروں، خیراتی اداروں و اسپتالوں، پچاس بیڈ سے زائد کے اسپتالوں، ایکسپورٹ پراسسینگ زونز میں صنعتوں کیلئے منگوائی جانے والی مشینری و پلانٹس، ایل ای ڈی، ایس ایم ڈی، ونڈ ٹربائن، اعلی کوالٹی کے ایریگیشن آلات، گرین ہاؤس فارمنگ اور دیگر گرین ہاوس آلات، فاٹا و پاٹا میں صنعتوں کیلئے منگوائی جانیوالی مشینری و پلانٹس، ادویات اور فارماسوٹیکل انڈسٹری کی طرف سے ادویات کی تیاری کیلئے استعمال ہونیو الے خام مال کی درآمد، نان ریذیڈنٹس اشیاء وخدمات کی سپلائی، سوڈیئم آئرن، مختلف نوعیت کے وٹامن، منرلز، نیوٹرنٹس، نوٹ بکس، غذائی اجزاء، پانچ سال پرانے کمبائنڈ ہارویسٹرز، سن فلاور، کینولا ہائبرڈ بیج، ڈیری فارمز کیلئے منگوائے جانیو الے پنکھے، اورنج لائن ٹرین، میٹرو کیلئے چائنیز کمپنیوں کی طرف سے ایکوئپمنٹ و آلات کی درآمد پر دی جانے والی ٹیکس چھوٹ واپس لے لی گئی ہے۔

اشیاء پر ٹیکسوں میں کیے جانے والے رد وبدل کا اطلاق صدر مملکت کی طرف سے دستخط کے بعد ایکٹ کی صورت میں ہوگا۔