درآمدات میں کمی سے 330 ارب روپے کا نقصان ہوا، ایف بی آر

FBR

FBR

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے دعویٰ کیا ہے کہ رواں مالی سال کے ابتدائی نصف کے دوران درآمدات میں 6 ارب ڈالر کمی سے اسے ٹیکس وصولیوں میں 330 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔

ایف بی آر یہ نے یہ دعویٰ ایسے وقت میں کیا ہے جب اسے ٹیکس وصولیوں کی ہدف میں بڑی ناکامی پر ہدف تنقید نشانہ بنایا جارہا ہے۔ درآمدات میں کمی اور معاشی سرگرمیوں میں سست روی کی وجہ سے ہونے والے ٹیکس شارٹ فال کی وجہ سے آئی ایم ایف کی جانب سے نصف مالی سال کے لیے دیا گیا 2.198 ٹریلین روپے کا ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل نہیں ہوسکا۔ یہ مسلسل دوسری بار ہے جب ایف بی آر نصف سال کے لیے مقرر کردہ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل نہیں کرسکا۔ اس بار شارٹ فال 115 ارب روپے رہا۔

ایف بی آر کے برعکس حکومت ایک بار پھر مالی سال کے ابتدائی نصف کاپرائمری بجٹ خسارے کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ درآمدات میں ہر ایک ارب ڈالر کی کمی پر ٹیکسوں کی مد میں 56 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔

بیان کے مطابق 5 ماہ کے دوران دارآمدات میں 5 ارب ڈالر سے زائد کی کمی سے اگرچہ جاری کھاتوں کے خساے کی صورتحال میں بہتری آئی تو دوسری جانب اس سے حکومتی ذرائع آمدن متأثر ہوئے۔

ایف بی آر کے مطابق رواں مالی سال میں جولائی تا نومبر جاری کھاتے کا خسارہ 73 فیصد کمی سے 1.82 ارب ڈالر رہا۔ تاہم اسی عرصے کے دوران 280 ارب روپے کے شارٹ فال کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 6 ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 6 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہا مگر اس سے ایف بی آر کے ریونیو میں 336 ارب روپے کی کمی بھی واقع ہوئی۔جولائی تا دسمبر کے عرصے کے لیے دو بار نظرثانی کے بعد ایف بی آر کے لیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 2.367 روپے مقرر کیا گیا تھا مگر ابتدائی طور پر ٹیکس وصولی 2.083 ٹریلین روپے رہی۔ اس طرح ٹیکس ریونیو ہدف سے 284 ارب روپے کم رہا۔

ایف بی آر کے ایک سینیئر اہلکار کا گذشتہ روز ( ہفتے کو) کہنا تھا کہ گذشتہ برس مئی میں قرضہ مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف بھی درآمداتی حجم محدود ہونے سے ٹیکس ریونیو پر ہونے والے اثر کا اندازہ نہیں کرسکا تھا۔ اس کے بجائے آئی ایم ایف کو امید تھی کہ روپے کی قدر میں کمی اور افراط زر سے ٹیکس مشینری کو آمدنی بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ایف بی آر کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے نصف میں ٹیکس وصولیاں گذشتہ برس کے مقابلے میں اب بھی 16.3فیصد زیادہ ہیں۔ 2015-16 کے بعد یہ سب سے زیادہ گروتھ ہے۔