عمران خان حکومت کا امریکا کو فوجی اڈے دینے کا معاملہ؟

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : میر افسر امان

عمران خان کو یاد رکھنا چاہییے کہ طالبان کی حمایت اور امریکا مخالفت کی وجہ سے دو دفعہ خیبر پختون خواہ میں حکومت ملی ہے۔ پاکستان میں ،کرپشن فری پاکستان، علامہ اقبال کے خواب اور قائد اعظم کے اسلامی وژن کے منشور کے تحت کامیاب ہوئے تھے۔ اب اگر عمران خان کی حکومت جائے گی تو اسی وجہ سے جائے گی کہ وہ امریکی دبائو میں آکر کہیں طالبان مخالف کوئی بھی کام کرے گا۔ ویسے ماسکومیں چین،روس، امریکا،بھارت اور پاکستان کے ایک پروگرام میں عمران خان حکومت ایک غلطی کر چکی ہے۔ وہ یہ غلطی ہے کہ امریکا کے جانے کے بعد پاکستان دوسرے ممالک کی طرح افغانستان میں طالبان کی اسلامی امارت کی حمایت نہیں کرتا؟طالبان اس پر پہلے سے ناراضگی کا اعلان کر چکے ہیں۔ طالبان نے اسلامی امارت کے لیے بیس برس امریکا کا مقابلہ کیا۔ اپنا سب کچھ نچھاور کر کے امریکا کو افغانستان سے نکالنے پر کامیاب ہوئے۔ امریکا کو اب فاقہ مست طالبان کو اپنی امارت اسلامی بنانے کا حق دینا چاہیے۔ وہ پہلے ہی براڈ بیس حکومت کا اعلان کر چکے ہیں ۔ طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جس کے جتنے بھی اثرات ہیں اس کے مطابق سب گروہوں کو حکومت کا حصہ ملے گا۔ مگر وہ حکومت بحر حال اسلامی ہی ہوگی ۔یہ طالبان کاحق بھی بنتا ہے ۔ ابھی تو طالبان نے افغانستان کو تورا بورا بنانے پر امریکا سے جنگی نقصانات(تاوان) کا مطالبہ نہیںکیا۔جو ایک بین الالقوامی طور پر طے شدہ ہے۔

عمران خان حکومت کاختم ہونا کا دورا سبب مہنگاہی ہے۔جس نے عوام کی کمز توڑ دی ہے۔ عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ مہنگاہی کی وجہ سے عمران خان کا گراف پہلے ہی گر چکا ہے۔ جس کا ثبوت ملک میں ذمنی انتخابات ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کو ان دو باتوں کو پلے باندھ لینا چاہیے۔کچھ دن پہلے امریکا نے ایک بیان جاری کیا تھا کہ پاکستان امریکا کے افغانستان سے نکلنے کے بعد نگرانی کے لیے بری اور فضائی سہولتیں دینی پر راضی ہے۔ اس پر نام نہاد اپوزیشن ، حقیقی اپوزیشن جماعت اسلامی کے امیر جماعت اسلامی سراج الحق اورعوام کی طرف سے عمران خان پر سخت تنقید کی گئی۔وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کے تردید کی تھی۔ آج ترجمان دفتر خارجہ کا بیان آیا ہے کہ امریکا سے فوجی اڈے دینے کا کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوا۔دونوں ممالک کے درمیان ماضی کے معاہدے ہیں۔ وزارت خارجہ کے سپوک پرسن زاہد حفیظ نے کہا کہ امریکا اورپاکستان کے مابین ماضی کے ائر اور گرائنڈ لائن آف کمیونیکیشن کے معاہدے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ امریکا کے ساتھ ٢٠٠١ء کے تعاون کے فریم ورک کے تحت کام کر رہے ہیں۔کچھ بھی ہے امریکا سے عمران خان کو جان چھڑانی چاہیے۔

عوام کو یاد ہے کہ عمران خان اور پاکستان کے سپہ سالار نے اعلان کیا تھا۔ اب پاک فوج کرایہ کی فوج کے طرح اب کسی کی جنگ نہیں لڑے گی۔دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہے۔ اب ہمیں ڈو مور کا نہ کہا جائے ۔بلکہ دنیا امریکا ڈو مور کرے۔ دکھوں کے مارے پاکستان کے عوام نے اپنی فوج اور سول حکومت کا ایک پیج پر ہونے اور یہ بیان سن کر سکھ کا سانس لیا تھا۔ پاکستان سات عشروں سے امریکی کی کالونی بنا ہوا ہے۔ اسی لیے جماعت اسلامی نے گو امریکا گو کی مہم چلائی۔ پاکستان کے ٩٠ فی صدعوام امریکا کے خلاف ہیں۔جبکہ امریکی سفیر منٹر نے اپنے دور میں نواز شریف، زرداری اور عمران خان سے الیکشن میں امریکا خلاف مہم نہ چلانے کی گارنٹی لی تھی۔ پاکستان میں مارشل لا امریکا کی مرضی سے لگتے رہے۔جولنگڑی لولی جمہوریت ہے وہ بھی امریکا کے حکم کے مطابق ہوتی ہے۔ امریکاجب چاہتا ہے تو پاکستان جہادی ہوتا ہے۔ جب چاہتا ہے تو دہشت گرد ہو جاتا ہے۔ افغان طالبان کبھی مجائدین تھے۔کشمیر بھی کبھی حریت پسند تھے۔ پھر دونوں کو دہشت گرد بنا دیا گیا۔

امریکی چنگل سے پاکستان کو نکالنے والا سیاست دان ہی پاکستان کا ہمدر ہو سکتا ہے۔دہشت گردی کی نام نہاد جنگ جو امریکا میں نائین الیون کے خود ساختہ واقعہ کر کے بڑی مہارت سے صرف اسلام سے نتھی کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد اسلام کے قلعے پاکستان پر اسرائیل ،بھارت اور امریکا نے گوریلہ جنگ مسلط کی۔ جسے ہمارے بہادر فوج نے چالیس ہزار جانوں،جس میںہمارے فوجی اور شہری شامل تھے کی قربانی اور اربوں ڈالر کی معاشی نقصان کے بعد فتح پائی۔ اب تو امریکا کو ہماری جان چھوڑ دینی چاہیے تھی۔ امریکا اب بھی سازش سے پاکستان اورافغانستان کو مد مقابل دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس نازک موقعہ پرامریکا نے ایسا بیان جاری کیا؟۔کیا وہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان کوئی نئی کشیدگی پیدا کرنا چاہتا ہے؟ افغانستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ افغان طالبان کی امارت اسلامیہ کے دوران پاک افغان تعلوقات صحیح ہوئے تھے۔ مگر امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد افغانستان میں قوم پرست حکومتوں نے تعلوقات پھر خراب کر دیے۔ امریکا نے پہلے سے ہی پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو پاکستان کی مخالفت کے باوجود بھارت کے افغانستان

٢
میںکام کرنے کے سہولتیں دے چکا ہے۔ اس وقت بھی افغانستان میں امریکا ،بھارت اورشمالی اتحاد کی پٹھو قوم پرست اشرف غنی حکومت ہے۔جسے طالبان تسلیم نہیں کرتے۔ یہ حکومت آئے دن پاکستان میں دہشت گردی کراتی رہتی ہے۔ اشرف غنی حکومت افغان طالبان اور امریکا کے درمیان دوحہ معاہدے میں داڑایں ڈالتا رہتا ہے۔امریکا نے افغانستان سے ستمبر تک فوجیں نکالنے کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ سیدھی طرح اس پر عمل کرے۔طالبان نے دوحہ معاہدے کے بعد امریکی فوجوں پر حملے نہیں کیے۔اشرف غنی خود افغانستان میں آئے دن دہشت گردی کے واقعات کراتا ہے اور اسے طالبان کے ذمہ لگانے کی کوشش کرتاہے۔ طالبان ایسی ساری دہشت گردی سے انکار کر تے ہیں۔ امریکی خود کہتے ہیں کہ دوحہ معاہدے کے بعد افغانستان میں طالبان نے ایک بھی امریکی فوجی ہلاک نہیں کیا۔

اصل مسئلہ امریکا کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں اسلامی حکومت کا قیام ہے۔ طالبان کی امارت اسلامیہ کو امت کے محسن شیخ اُسامہ بن لادن کا بہانہ بنا کر اور ٤٨ نیٹو ملکوں کی فوجوں کے ساتھ حملہ کر کے ختم کیا تھا۔ طالبان غیر ملکی فوجوں کو اپنے ملک سے نکالنے کے لیے بیس برس تک لڑتے رہے۔امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شکست مان کر اپنی ساری فوجیں افغانستان سے نکانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے لیے امریکا کے سابق صدر ذونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ دوحہ میں امن معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق امریکا نے افغانستان سے مئی میں اپنی فوجیں نکالنی تھیں۔ نئے امریکی صدر نے معاہدے کی خلاف دردی کرتے ہوئے فوجوں کو نکالنے کو ستمبر تک بڑھا دیا۔ اسے امریکا کے سابق صدر کے وعدے کی پاسداری کرنے چاہیے۔ رہا افغانستان سے امریکا کے جانے کے بعد کی افغان حکومت ،تو افغان طالبان جانیں اور افغان کے عوام کہ کونسی حکومت قائم کرتے ہیں۔ طالبان تو کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں موجود سارے گروپوں کی طاقت کے مطابق نمایندگی دے کر براڈ بیس حکومت بنائیں گے۔ جو ایک اسلامی ملک میں یقیناً اسلامی ہی ہو گی۔مگر یہ چین، روس، بھارت اور امریکا کو منظور نہیں۔ان سب کو ڈر ہے کہ افغانستان میں اسلامی امارت قائم ہونے سے ان کی مسلم اقلیتیں طاقت پکڑیں گی۔

ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب افغانستان میں طلبان کی اسلامی امارت قائم تھی۔ اُس وقت طالبان نے کسی بھی ملک کے اندر مدراندازی نہیں کی تھی۔ اب بھی طالبان ان ممالک کو انشورنس دلاتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے تباہ حال عوام کی ترقی کی کوشش کریں گے۔ کسی بھی ملک کے اندر مداخلت نہ پہلے کی تھی، نہ اب کریںگے۔ ان ملکوں کو بھی چاہیے کہ افغان عوام کو اپنے مرضی کی حکومت بنانے دیں۔اگر یہ ممالک ایسا نہیں کریں گے۔ تو پھر تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ افغانستان میں نہ پہلے برطانیہ کی مرضی چلی تھی ۔نہ روس کی چلی تھی اور نہ ہی امریکا کی مرضی چلی ہے۔ افغانستان افغانوں کا ہے صرف ان کی مرضی چلے گی۔ تاریخ کے اس سبق کو یاد رکھیں۔ ناجائز قسم کے مطالبات افغانوں نے نہ پہلے مانے تھے نہ اب مانیں گے۔

یہ بھی کہا جاتا کہ روس کی شکست کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تھے۔ اب امریکا کے افغانستان سے نکل جانے کے بعداشرف غنی کی قوم پرست حکومت اور طالبان کے دمیان خانہ جنگی ہو گی۔ پہلے امریکا نے اسلامی حکومت کوروکنے کے لیے پاکستانی حکومت سے مل کر افغانستان میں خانہ جنگی کرائی تھی۔ اب اگر پھر پہلے جیسی حرکت کرے گا تو اب ممکن نہیں۔ کیونکہ طالبان نے بیس سالہ جنگ میںبہت سبق حاصل کر لیا ہے۔ وہ افغانستان کے سارے گروپوں کو ملا کر براڈ بیس حکومت بنائیں گے ۔ ان کوموقعہ ملنا چاہیے۔ عمران خان حکومت کو اگر اپنی حکومت بچانا ہے اور چین کو اپنے روڈ اینڈبلٹ کے منصوبے کو آگے بڑھانا ہے تو افغانستان کے معاملات میں دخل دینے سے اجتناب کریں۔ بلکہ طالبان کے ہاتھ مظبوط کریں ۔ امریکی سازش کو ناکام بنائیں۔ طالبان پہلے کی طرح پاکستان اور چین کے ساتھ ہوں گے۔ان شاء اللہ۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان