آزادی کشمیر !

Kashmir Freedom

Kashmir Freedom

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا

گزشتہ ہفتہ سے انڈیا نے ” مقبوضہ کشمیر ” میں کرفیوں لگا رکھا ہے۔ ٹیلی کمنیکیشن ، موبائل ، انٹرنیٹ بند ہونے سے مظلوم عوام کی آوا ز کا ترجمان ” سوشل میڈیا ” مکمل بند ہے۔کشمیر میں گلی محلے میں فوج کی یلغار لگا کر قتل عام شروع کر دیا ہے۔ انڈیا فوج کی کشمیر پر یلغار ایک ایک گھر کے اوپر درجن درجن فوجی اور انڈین فوج کو کھلی چھٹی دینا اور مجبور بے بس معصوم کشمیریوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا ۔ ظلم کے اوپر اس سے بڑا اور کیا ظلم ہوگا؟ عالمی طاقتیں ، انسانی حقوق کی تنظیمیں محض اس لئے خاموش ہے کہ مرنے والوں کا تعلق ” امت ِ محمدیہ ” سے ہے۔ یہ قیامت صغریٰ کشمیر میں اس وقت سے شدت اختیار کر گئی ہے جب اسلامی جموریہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کے طاقت ور ملک امریکہ کے صدر ڈولنڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ امریکی صدر نے کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہہ کر اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ انڈیا اور پاکستان میں قیام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک مسلہ کشمیر حل نہیں ہو سکتا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے جو حقیقت ہے کہ عالمی دنیا مسلہ کشمیر سے پوری طرح آگاہ ہے۔

ماہِ اگست کے آتے ہی پاکستان اور انڈیا میں ” آزادی کی تقریبات منعقد کرنے کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ماہ اگست سن 1947ء میںپاکستان اور بھارت نے انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارہ حاصل کیا۔ ایسے علاقہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہیں وہ پاکستان بن گیا۔ جس کے لئے اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ مگر افسوس انگریزوں نے اپنی منفی چالوں اور مکروفریب سے ایسے علاقے بھی پاکستان میں شامل نہ کئے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ۔انگریز کی سازشوں اور لالچ سے افسوس ہمارے کچھہ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے پاکستان بنانے کی بھرپور مخالفت اور بھارت کی حمایت کی اور دشمنانِ اسلام نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔اور اس چیز کا دکھ کرب آج پوری قوم اٹھا رہی ہے ۔اللہ پاک نے اپنی مقدس اور الہامی کتاب ِ مبین میں ارشاد فرمایا ہے کہ یہودونصریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے وجود میں مسلمانوں کے اکثریت والے علاقے بھی پاکستان میںانگریزوں نے شامل نہ کئے۔ ایک امر کی وضاحت جہاں انسان پیدا ہوتا ہے یا پھر قدرتی طور پر جس جگہ اسکی فانی زندگی کا خاتمہ لکھا ہوتا ہے ۔ اس دھرتی سے انسان کو ” حُب ” ہوتی ہے۔

جب بھارت دو حصوں میں بٹ کر ایک حصہ ” پاکستان ” جبکہ دوسرا حصہ ہندوستان بن گیا۔ انڈیا کے حصے میں بسنے والے مسلمانوں نے اپنے کاروبار، رشتے دار، جائدادیں سب کچھ چھوڑ کر آزاد ملک پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کو ترجیح دی۔ الحمدللہ پاکستان کے حصے کے مسلمانوں نے اپنی حثیت کے مطابق اپنے مہاجرین کی دل کھول کر مدد آؤ بھگت کی حکومت پاکستان نے املاک کاروبار اور جائیدادوں کا نعم البدل مہیا کر کے اپنا حق ادا کیا۔ تاریخ گواہ ہے جب مسلمان ہندوستان سے پاکستان ہجرت کر کے آتے تھے تو گائے کا پیشاب پینے والوں نے ماؤں سے شیرخواروں کو چھین کر ماں جیسی مقدس ہستی کے سامنے بچہ کو چھال کر نیچے تیر رکھ کر معصوم کو دوحصوں میں چیر دیتے۔ جوان بھائی کے سامنے بہنوں کو ننگا نیچاتے اور بھائی کے سامنے بہنوں کی عزت تار تار کرتے۔ معصوم دوشیزہ کے پستان کاٹ کاٹ کر پھینک دیتے۔

باپ جیسے عظیم رشتہ کے سامنے اس کی لختے جگروں کو اجتماعی ہوس کا نشانہ بناتے۔ تشدد گھراؤ جلاؤ ہر طرف قیامت کا سماں ۔ ایسے موقع پر پاکستان سے اعلان کیا جاتا جو لوگ انڈیا جانا چاہتے ہیں ان کو حکومت کی نگرانی میں ہندوستان پہنچا دیا جاتا تھا اورجو لوگ خصوصاً انڈیا سے پاکستان آنا چاہتے تھے ان کو ہندؤں کی بدمعاشیوں کا سامنا کرنا پڑتا جیسا پہلے عرض کیا جا چکا ہے ۔ خاص بات بہت سارے مسلمان ایسے بھی تھے جو اگر پاکستان آنا چاہتے تو پاکستان آ سکتے تھے مگر وہ محض اس لئے نہیں آئے کہ ان کے آباؤجداد کی نشانیاں قبریں ، مسجدیں یادگاریں وہاں تھی۔ مجھے کہنے دو دوسرے لفظوں میں ان کو وہاں ( انڈیا ) کی مٹی سے پیار تھا ۔ میں نے عرض کیا ہے انسان جس مٹی سے پیدا ہوتا ہے یا جس مٹی میں مل کر مٹی بننا ہوتا ہے انسان کو اس مٹی سے پیار ہوتا ہے۔ انڈیا کے مسلمانوں کو اپنے وطن( انڈیا ) کی مٹی سے پیار ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کو ترجیح نہ دی بلکل اسی طرح پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کا معاملہ ہے۔ جن میں سکھ عیسائی یہودیوں سمیت ہندوؤں کو بھی 1947 میں یہ حق حاصل تھا۔لوگوں کی مرضی پر منحصر تھا کہ وہ انڈیا میں رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان میں ۔ جو جہاں رہا ( پاکستان )اس کو اس کا حق مل گیا۔

یہی وجہ ہے دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کی کوئی سازش یا چال کامیاب نہیں۔ جو انڈیا نے کشمیر کو فوجی چھاونی بنا دیا ہے صرف اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں پرانے وقتوں میں روشنی کے لئے جو ”دیا ” جلایا جاتا تھا تاکہ رات کو روشنی رہے اور اس میں تیل یا گھی ڈالا جاتا تھا۔ جو عقل مند لوگ تھے وہ دیا کو ہلا کر نہیں دیکھتے تھے بلکہ جب دیا کبھی زیادہ کبھی کم روشنی دینا شروع کر دیتا تھاتو سیانے لوگ دیئے کی پھڑ پھڑ سے اندازہ لگا لیتے تھے کہ اب دیا کا تیل ختم ہو گیا ہے اور دیا بند ہونے والہ ہے بلکل ایسے ہی انڈیا کی یہ جو پھڑ پھڑ ہے یہ ثابت کرتی ہے کہ انڈیا کا تیل کشمیر پر قابض کرنیوالہ ختم ہو گیا ہے۔ اور انڈیا کی فوج کشمیر کے گلی محلے میںجو چھوڑی گئی ہے اس بند ہونے والے دیا کی روشنی سمجھو۔

گزشتہ سال سے انڈیا گورنمنٹ کی آشیرباد کے بل بوتے پر ہندوؤں کہتے ہیں ہندوستاں صرف ہندوؤں کا ملک ہے باقی اقلیتیں انڈیا چھوڑ دیں۔ یہ مطالبہ کوئی باشعور قوم کر سکتی ہے؟ گائے کا پیشاب پینے والوں کے دماغ میں بھی گائے کا بھوسہ اور پیشاب کا نشہ چڑھا ہوا ہے۔افسوس عالمی طاقتیں مسلہ کشمیر حل کروانے میں اس لئے اپنا کردار ادا نہیں کر رہی کہ کشمیری مسلمان ہیں کہتے ہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔ اور جب بھی امت مسلمہ نے ہندؤں کا علاج باتوں کی بجائے لاتوں سے کیا تو پھر اگر 14 اگست کوایک نہیں دو آزادیاں منائیں گئے ۔ایک آزادیِ پاکستان اور ایک آزادی کشمیر ۔۔۔۔ انشااللہ

DR Tasawar Hussain Mirza

DR Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا