بھارت اپنے شہریوں کو یوکرین سے واپس لانے میں کتنا کامیاب رہا؟

Indian Citizens

Indian Citizens

یوکرین (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت ‘آپریشن گنگا’ کے تحت تقریباً اٹھارہ ہزار افراد کو جنگ زدہ ملک یوکرین سے وطن واپس لاچکا ہے۔ ایک حلقہ حکومت کے اس اقدام کی ستائش کررہا ہے تاہم بعض لوگ حکومتی کوششوں کو ناکافی قرار دے رہے ہیں۔

بھارت نے جنگ زدہ ملک یوکرین میں پھنسے اپنے شہریوں کو بچانے کے لیے شروع کیے گئے “آپریشن گنگا” مشن کو مکمل کرلیا ہے۔ یوکرین میں رہنے والے تقریباً بیس ہزار بھارتی شہریوں میں سے لگ بھگ اٹھارہ ہزار کو تیرہ دنوں کے اندر وطن واپس لایا گیا۔ یہ آپریشن جمعرات کے روز پایہ تکمیل کو پہنچا۔

بھارتی شہری، جن میں اکثریت وہاں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تھی، یوکرین میں ٹرانزٹ پوائنٹس سے سرحد پار کرنے کے بعد رومانیہ، پولینڈ، ہنگری، سلوواکیہ اور مالدووا سے طیاروں کے ذریعہ دہلی اور دیگر شہروں تک پہنچائے گئے۔

بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر، جو شہریوں کو واپس لانے کے لیے یوکرین میں بھارتی سفارت خانے کے ساتھ مل کر کام کی نگرانی کر رہے تھے، نے جمعے کے روز ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ آپریشن گنگا کافی چیلنجنگ ثابت ہوا۔ انہوں نے اس آپریشن میں مدد کرنے والے تمام لوگوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔

جے شنکر نے کہا، “انخلاء میں تعاون کے لیے ہم بالخصوص یوکرین اور روسی حکام نیز ریڈکراس کے ممنون ہیں۔ یوکرین کے پڑوسی ممالک رومانیہ، ہنگری، پولینڈ، سلوواکیہ اور مالدووا نے غیر معمولی تعاون کیا۔ میں ان سب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔”

آپریشن گنگا میں بھارتی مسلح افواج، ایئر انڈیا اور انڈیگو، اسپائس جیٹ اور ایئر انڈیا ایکسپریس جیسی پرائیوٹ فضائی کمپنیوں کے مجموعی طورپر 76 طیارے استعمال کیے گئے۔

بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جو بھارتی شہری اب بھی وہاں رہ گئے ہیں یا کسی علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں ان کی تلاش جاری رہے گی۔
بھارتی حکومت کی نکتہ چینی

مودی حکومت کی جانب سے بھارتی شہریوں کے انخلاء کے اقدامات کی بہت سے لوگوں نے تعریف کی۔ یوکرین میں جیسے ہی جنگ شروع ہوئی، بھارت نے ایک بیان جاری کرکے تشدد کو روکنے کی اپیل کی تھی۔ تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین پر روسی جارحیت کی مذمت میں پیش کردہ قرارداد پر ووٹنگ سے بھارت غیر حاضر رہا۔ نئی دہلی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں بھی ایک دوسری قرارداد پر بھی ووٹنگ سے غیرحاضر رہا۔

بھارت کے اس موقف کی سخت نکتہ چینی کی گئی اور اس سے اس کے دیرینہ حلیف روس کے خلاف سخت کارروائی کی اپیل کی گئی۔ لیکن بھارت نے اس کے بجائے اپنی پوری توجہ اپنے شہریوں کو وطن واپس لانے اور انسانی امداد فراہم کرنے پر مرکوز کی۔ تاہم یہ اقدامات بھی نکتہ چینی کی زد میں آگئے۔

بعض ناقدین کا کہنا تھا کہ بھارت نے یوکرین میں پھنسے ہوئے اپنے شہریوں کی خاطر خواہ مدد نہیں کی۔ بیشتر طلبہ کو وطن واپس آنے کے لیے کسی مدد کے بغیر ٹرین اور بس کے ذریعہ یا پھر پیدل ہی پڑوسی ملکوں تک سفر کرنا پڑا۔ اس دوران کرناٹک سے تعلق رکھنے والا بھارتی طالب علم نوین یوکرین میں روسی فورسز کی شیلنگ سے ہلاک ہوگیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق مصیبت کے وقت میں بیرون ملک رہنے والے بھارتی شہریوں کی مدد کے لیے قائم سرکاری ادارے انڈین کمیونٹی ویلیفیئر فنڈ (آئی سی ڈبلیو ایف) نے خاطر خواہ مالی امداد فراہم نہیں کی۔

بھارتی صحافی رویش کمار نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا،” گزشتہ برس دسمبر میں بھارت سرکار نے پارلیمان میں بتایا تھا کہ آئی سی ڈبلیو ایف کے پاس 4740 ملین روپے ہیں۔ کووڈ کے آغاز کے بعد سے اکتوبر 2021 تک حکومت نے اس فنڈ میں سے 440 ملین روپے خرچ کیے۔ تاہم 4000 ملین روپے موجود رہنے کے باوجود اس کا بروقت استعمال نہیں کیا گیا۔”

اس دوران یوکرین سے نکلنے کی کوشش کرنے والے ایشیائی اورافریقی شہریوں کے ساتھ غیر مساوی سلوک کی خبریں بھی سامنے آتی رہیں۔

یوکرین سے سلوواکیہ کے راستے دہلی آنے والے طالب علم ابھیشیک سنگھ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، “صرف اس وجہ سے کہ ہم غیر ملکی تھے، سرحدوں پر ہم لوگوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا گیا اس سے میرا دل ٹوٹ گیا۔”

ناقدین نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو یوکرین میں پھنسے بھارتی طلبہ کو واپس لانے کے اقدام کو حالیہ اسمبلی انتخابات کے دوران اپنی شہرت اور خود نمائی کے لیے استعمال کرنے کے الزامات لگائے۔

راہول گاندھی نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا،”وطن واپس لانا ذمہ داری ہے کوئی مدد نہیں۔”

مودی کو سابقہ حکومتوں کی ان پالیسیوں، جس کی وجہ سے طلبہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک جاتے ہیں، کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے بھی نکتہ چینی کا شکار ہونا پڑا۔

مودی نے یوکرین سے واپس آنے والے طلبہ اور ان کے سرپرستوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا، “اگر سابقہ میڈیکل پالیسیاں درست ہوتی تو آپ کو باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔”