بھارت: شہریت ترمیمی بل عدالت میں چیلنج

Indien BJP

Indien BJP

کیرالا (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کی کئی ریاستیں شہریت ترمیمی ایکٹ پر اعتراضات کر چکی ہیں تاہم جنوبی ریاست کیرالا کی ایسی پہلی حکومت ہے، جس نے اسے عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔

جنوبی ریاست کیرالا میں بائیں بازو کی حکومت نے آئین کی مختلف دفعات کا حوالہ دے کر شہریت ترمیمی ایکٹ کو سیکولر اقدار کے منافی اور مساوی حقوق کا مخالف بتاتے ہوئے عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ عدالت عظمی میں اس ایکٹ کے خلاف اب تک تقریباً ساٹھ عرضیاں داخل کی گئی ہیں، جس میں اب کیرالا کی حکومت بھی شامل ہوگئی ہے۔ ریاستی حکومت نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ نیا قانون آئین کی دفعہ چودہ، اکیس اور پچیس کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

بھارتی دستور کی دفعہ چودہ میں ہر شہری کو، بلا امتیاز مذہب و قوم ، مساوی درجہ حاصل ہے جبکہ دفعہ اکیس میں زندگی اور آزادی کے حق کی بات کہی گئی ہے۔ دفعہ پچیس میں تمام شہری، بلا تفریق مذہب، ذات اور برادری آزادی کے یکساں حقدار ہیں۔ کیرالا کی حکومت نے سپریم کورٹ سے اس قانون کو کلعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔

بھارتی حکومت نے شہریت سے متعلق جو نیا ایکٹ منظور کیا ہے، اس میں پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے سبھی تارکین وطن کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے تاہم مسلمانوں اس میں شامل نہیں ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ نیا قانون مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے والے افراد کی مدد کے لیے ہے لیکن اس کی مخالفت کرنے والے افراد کا موقف ہے کہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہے اور ملکی سطح پر اس قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ میں اب تک دو درجن سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کئی سو افراد کوگرفتار کیا گيا ہے۔

بیس اگست کو اس قانون کے خلاف نئی دہلی کی جامع مسجد کے سامنے ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شامل دلت رہنما چند شیکھر آزاد کو بھی گرفتار کیا گيا تھا، جن کی ضمانت کے لیے آج دہلی کی ایک عدالت میں سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل سیشن جج کامنی لاؤ نے سماعت کے دوران دہلی پولیس پر سخت الفاظ میں نکتہ چینی کی اور کہا کہ مسٹر آزاد کو آئینی طور احتجاج کا حق حاصل ہے۔

جج نے جب سوال کیا کہ جب آئین نے دھرنا دینے اور مظاہرہ کرنے کا حق دیا ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ جواب میں وکیل نے کہا کہ جامع مسجد کے باہر پولیس نے احتجاج کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس پر جج نے پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کو احتجاج اور مظاہرہ کرنے کا پورا حق ہے،’’آپ کاسلوک تو ایسا ہے جیسے جامع مسجد پاکستان میں واقع ہے۔ اگر یہ پاکستان بھی ہوتی تو بھی آپ وہاں جا کر مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ پاکستان غیر منقسم ہندوستان کا ہی حصہ تھا۔‘‘ اس کیس کی سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔

دارالحکومت نئی دہلی سمیت بھارت کے مختلف علاقوں میں شہریت سے متعلق نئے قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ شاہین باغ کی طرح ہی ملک کے بعض دیگر علاقوں میں بھی خواتین نے دھرنا دیا ہوا ہے۔ ادھر شاہین باغ میں گزشتہ ایک ماہ سے جاری احتجاجی مظاہروں کو ختم کروانے کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں جو عرضی دائر کی گئی تھی اس پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے دہلی پولیس کو مقامی لوگوں سے بات چیت کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اس دوران حکمران جماعت بی جے پی کی رکن پارلیمان میناکشی لیکھی نے اس قانون کے حوالے سے مائیکروسافٹ کے بھارتی نژاد سی ای او ستیہ ناڈیلا کے بیان پر نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ ایسے پڑھے لکھے لوگوں کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ مسٹر نڈیلا نے اپنے ایک بیان میں اس قانون پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بھارت میں تارکین وطن کو استقبال کرنے کی وکالت کی تھی۔ گوگل کے سی ای او سندر پچائی پہلے ہی اس قانون کے خلاف آواز اٹھا چکے ہیں۔