بھارت: ایک دن میں کورونا کے دو لاکھ سے زائد نئے کیسز، تین لاکھ پہنچنے کا خدشہ

Coronavirus Death

Coronavirus Death

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں کورونا وائرس کی وبا پوری شدت کے ساتھ جاری ہے لیکن سیاسی اجتماعات اور مذہبی تقریبات بھی بدستور جاری ہیں، جن میں بیک وقت لاکھوں افراد شریک ہو رہے ہیں۔

پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس سے متاثرین کے دو لاکھ سے زائد نئے کیسز اور ایک ہزار سے زائد ہلاکتیں درج کی گئیں۔ اس وبا سے متاثر اورہلاک ہونے والوں کا ہر روز ایک نیا ریکارڈ بن رہاہے اور بھارت اب صرف امریکا سے پیچھے رہ گیا ہے۔

بھارتی وزارت صحت کی طرف سے جمعرات پندرہ اپریل کو جاریہونے والے اعدادوشمار کے مطابق پچھلے چوبیس گھنٹے کے دوران کورونا کے دو لاکھ 739 نئے کیسز درج کیے گئے جس کے ساتھ ہی بھارت میں کورونا سے متاثرین کی تعداد بڑھ کر ایک کروڑ 40 لاکھ 74 ہزار 564 ہوگئی ہے جبکہ 1038افراد کی موت ہوگئی جس کے ساتھ اس عالمگیر وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 73 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔

کورونا وائرس کی دوسری لہر سے بھارت کے بیشتر حصے متاثر ہوچکے ہیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سلسلہ مئی کے اواخر تک جاری رہے گا۔

بھارت کے معروف وائرولوجسٹ ڈاکٹر شاہد جمیل نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ کیسز انتہائی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اگر آپ اس کے بڑھنے کی شرح دیکھیں تو یہ روزانہ سات فیصد کے قریب ہے۔ یہ بہت زیادہ شرح ہے اور بدقسمتی سے اگر یہ شرح برقرار رہی تو آنے والے دنوں میں ہر روز تین لاکھ تک نئے کیسز سامنے آسکتے ہیں۔”

ایک سرکاری ماہر صحت ڈاکٹر ایس کے سرین نے بھی کہا ”نئے کیسز کی تعداد تشویش ناک ہے۔”

ڈاکٹر شاہد جمیل کا کہنا تھا کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں ہونے والے حالیہ اسمبلی انتخابات کے دوران سیاسی جلسوں میں لاکھوں لوگوں کی شرکت اور ہردوار میں کمبھ میلے میں دریائے گنگا میں ڈبکی لگانے کے لیے لاکھوں لوگوں کا جمع ہونا ملک بھر میں کورونا کے تیزی سے پھیلنے کے اہم اسباب ہیں۔

بدھ کے روز ہی ایک دن میں ساڑھے تیرہ لاکھ سے زائد ہندوؤں نے گنگا میں ڈبکی لگائی۔ عقیدت مندوں کا کہنا ہے ”یہ عقیدے کا معاملہ ہے اور یہ کسی بھی چیز سے بالا تر ہے۔”

کورونا کا سب سے زیادہ اثر مغربی ریاست مہاراشٹر پر ہوا ہے۔ ریاستی حکومت نے اگلے پندرہ دنوں تک کے لیے بیشتر تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں پر بندشیں عائد کردی ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک بار پھر لاکھوں مہاجر مزدور اپنے وطن واپس لوٹنے کے لیے مجبور ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ریلوے اسٹیشنوں پر افراتفری کا ماحول ہے۔

قومی دارالحکومت دہلی میں بھی کورونا نے اپنا پچھلا ریکارڈ توڑ دیا۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران سترہ ہزار سے زائد نئے کیسز اور ایک سو سے زائد ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔ دہلی حکومت نے کورونا کے بحران پر قابو پانے کے لیے ویک اینڈ پر کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ البتہ کرفیو پاس کے ساتھ بعض لازمی سرگرمیوں کی اجازت ہوگی۔

دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے جمعرات کے روز نئے ضابطوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا،” یہ بندشیں آپ ہی کے فائدے کے لیے ہیں۔ ان بندشوں سے آپ کو پریشانی تو ضرور ہوگی لیکن یہ کورنا کے ٹرانسمیشن چین کو توڑنے کے لیے ضروری ہے۔”

دہلی حکومت نے متعدد ہوٹلوں اور شادی گھروں کو کووڈ سینٹر میں تبدیل کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ چودہ اہم پرائیوٹ ہسپتالوں کو کووڈ اسپیشل ہاسپیٹل میں تبدیل کردیا گیا ہے اور 101دیگر پرائیوٹ ہسپتالوں کواپنے 60 فیصد بیڈ کورونا مریضوں کے لیے ریزرو رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ڈاکٹروں کی تنظیموں نے حکومت کے اس فیصلے کی نکتہ چینی کی ہے۔ ایسوسی ایشن آف ہیلتھ کیئر پرووائیڈرس انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر گردھرگیانی نے اس فیصلے کو’بکواس‘ اور غیر کووڈ مریضوں کے ساتھ انصافی قرار دیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ حکومت کی ‘ناکامی‘ کا خمیازہ آخردیگر مریضوں کو کیوں بھگتنا پڑے؟

مرکزی وزارت تعلیم نے مرکزی(سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن) سطح پر ہونے والے دسویں کلاس کے امتحانات کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ اس سے مجموعی طور پر ساڑھے اکیس لاکھ سے زائد طلبہ متاثر ہوں گے۔

وزیر اعظم نریندرمودی کی صدارت میں ہونے والی ایک میٹنگ میں حکومت نے بارہویں درجہ کے امتحانات کو بھی ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے کا اثر چودہ لاکھ سے زائد طلبہ پراثر پڑے گا۔

کورونا سے بڑی تعداد میں ہونے والی غیر متوقع اموات کی وجہ سے شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں پر بھی دباؤ بڑھ گیا ہے۔

ملک کے بیشتر حصوں سے رپورٹیں موصول ہورہی کہ شمشان گھاٹوں میں مردوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ لاشوں کو جلانے کے لیے لکڑیاں کم پڑ گئی ہیں اور شمشان گھاٹوں نے آخری رسومات کی ادائیگی کے اخراجات بڑھا دیے ہیں۔

بعض شہروں میں قبرستانوں میں بھی گورکن کی کمی اور قبرستان انتظامیہ کی جانب سے تدفین کے اخراجات میں اضافہ کی شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔