بھارت: مظاہروں کا سلسلہ جاری، ہلاکتوں کی تعداد نو ہو گئی

Protest

Protest

نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف حکومتی بندشوں کے باوجود جمعے کے روز بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب اب تک کُل نو افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

حکومت نے دارالحکومت نئی دہلی میں آج بھی کسی طرح کی ریلی یا مظاہرے کرنے کی اجازت فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ آج صبح وزیر داخلہ اُمیت شاہ کی رہائش گاہ کی جانب پیدل مارچ کرنے والے کانگریس پارٹی کے ایک قافلے کو روکا گيا اور سابق صدر پرنب مکھرجی کی بیٹی سرمشٹھا مکھرجی کو حراست میں لے لیا گیا۔ بہت سے علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز کو گزشتہ روز ہی معطل کر دیا گیا تھا جبکہ ریاست کرناٹک اور یو پی میں آج اس کے دائرے کو مزید وسیع کر دیا گیا ہے۔

لیکن ان پابندیوں کے باوجود نئی دہلی کے کئی علاقوں سے مظاہروں کی خبریں ہیں۔ نماز جمعہ سے قبل تاریخی جامع مسجد کے باہر ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوئے، جہاں نوجوان دلت رہنما چندر شیکھر آزاد بھی پہنچے اور شہریت سے متعلق نئے ایکٹ کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ پولیس مسٹر آزاد کی تلاش میں تھی اور اس نے انہیں روکنے کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے صبح ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’’میری گرفتاری کی افواہوں پر توجہ نہ دی جائے، میں جامع مسجد کے احتجاج میں حصہ لینے کسی بھی طرح پہنچ رہا ہوں۔‘‘ احتجاج کے دوران پولیس کا ایک دستہ ہجوم میں داخل ہوا اور تھوڑی دیر کی رسہ کشی کے بعد آزاد کو حراست میں لے لیا گیا۔

جامع مسجد کے علاقے میں آج ہر جانب پولیس کا پہرہ ہے اور پولیس ڈرونز کے ذریعے پورے علاقے کی نگرانی کر رہی ہے۔ شہر میں آج انڈیا گیٹ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے آس پاس بھی احتجاجی مظاہروں کی تیاری ہے۔ انتظامیہ نے اس سے نمٹنے کے لیے ان علاقوں کے آس پاس کے تمام میٹرو اسٹیشنز کو بند کر دیا ہے اور ہر جانب سکیورٹی دستے گشت کرتے نظر آرہے ہیں۔

گزشتہ روز لکھنو میں ایک شخص اور منگلور میں دو افراد مظاہروں کے دوران پولیس کی فائرنگ میں ہلاک جبکہ بہت سے زخمی ہوئے تھے۔ جنوبی ریاست کرناٹک کے معروف شہر منگلورو میں حکام نے اتوار تک کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے جبکہ لکھنو کے بیشتر حساس علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں۔

یوپی کے سنبھل، علی گڑھ، اعظم گڑھ اور جیسے علاقوں میں ایس ایم ایس سروسز کو بھی بند کیا گيا ہے جبکہ پوری ریاست میں دفعہ 144 نافذ ہے جس کس تحت چار سے زیادہ افراد کو ایک جگہ جمع ہونے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ ریاست کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ کے اس بیان پر بھی نکتہ چینی ہو رہی ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جو افراد تشدد میں ملوث تھے، ان سے حکومت انتقام لے گی اور تباہ ہونے والی سرکاری املاک کی رقم کے لیے ان کی جائیداد کو نیلام کیا جائے گا۔

ادھر شمال مشرقی ریاست آسام میں آج تقریبا ایک ہفتے کے بعد بہت سے علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز کو بحال کر دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے مظاہروں کا سلسلہ شمال مشرقی ریاستوں میں شروع ہوا تھا، جہاں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

بھارت کے مختلف شہروں میں دوپہر کے بعد بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات ہیں اور اس سے نمٹنے کے لیے مختلف ریاستوں کی انتظامیہ نے بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا ہے۔