بھارت: ڈاکٹر کے ساتھ جنسی زیادتی، ملزمان ’انکاؤنٹر‘ میں ہلاک

Protest

Protest

حیدرآباد (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی شہر حیدرآباد میں جانوروں کی ایک نوجوان خاتون ڈاکٹر کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کے قتل میں ملوث چاروں ملزمان کو آج جمعے کی صبح مقامی پولیس اہلکاروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

حیدرآباد کے نزدیک سائبر آباد کے ڈپٹی پولیس کمشنر این پرکاش ریڈی کا کہنا ہے کہ یہ چاروں ملزمان پولیس کی تحویل میں تھے اور اسی جگہ پولیس کی گولی کا شکار ہوئے، جہاں انہوں نے 27 سالہ خاتون ڈاکٹر کو زندہ جلا دیا تھا۔ انہوں نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا، صبح چھ ساڑھے چھ بجے ہمارے آدمی ملزمان کو واردات کے اصل مقام پر لے جا رہے تھے تاکہ اس واردات کی دوبارہ منظر کشی کی جا سکے اور یہ دیکھا جا سکے کہ انہوں نے کس طرح واردات سر انجام دی۔ لیکن ملزمان نے پولیس سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی۔ جوابی کارروائی میں چاروں ملزمان ہلاک ہو گئے جبکہ دو پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔”

چاروں ملزمان کو 29 نومبر کو گرفتار کیاگیا تھا۔ ملزمان کی شناخت جی شیوا، جے نوین، سی چنا کیشولو اور محمد عارف کے طور پر ہوئی تھی۔ ان تمام ملزمان کی عدالتی تحویل میں گزشتہ روز ہی توسیع کی گئی تھی جس کے بعد پولیس نے فیصلہ کیا تھا کہ اس واردات کی دوبارہ منظر کشی کے لیے انہیں جائے وقوعہ پر لے جایا جائے۔ پولیس نے پہلے کہا تھا کہ یہ واقعہ صبح کے ساڑھے تین بجے پیش آیا تاہم بعد میں کہا گیا کہ یہ چھ ساڑھے چھ بجے پیش آیا۔ اس تضاد کے بارے میں پولیس نے فی الحال کوئی وضاحت نہیں پیش کی ہے۔

حیدرآباد کی خاتون ڈاکٹر کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی اور اسے زندہ جلا دینے کے واقعے کے خلاف گزشتہ ہفتے بھارت کے مختلف شہروں میں زبردست مظاہرے ہوئے تھے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اس معاملے کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی۔

پولیس کی آج کی کارروائی پر متضاد رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ ایک حلقہ پولیس کی ‘کارکردگی کی تعریف کر رہا ہے لیکن دیگر حلقے پولیس کے طریقہ کار پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر اور بی جے پی کے رکن پارلیمان راجیہ وردھن سنگھ راٹھور نے ٹوئٹ کیا، میں حیدرآباد پولیس کو مبارک باد دیتا ہوں اور اس قیادت کو بھی، جس نے پولیس کو پولیس کی طرح کام کرنے کی اجازت دی۔ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ وہ ملک ہے جہاں جھوٹ پر سچ کی ہمیشہ فتح ہوتی ہے۔”

کانگریس کے سینئر رہنما اورسابق وفاقی وزیر جیوترادتیہ سندھیا کا کہنا تھا، حیدرآباد میں درندوں کو اپنے گناہ کی سزا ملی۔ مہذب سماج میں ایسے گناہ گاروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔”

قومی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن ریکھا شرما نے کہا، انکانٹر ہمیشہ ٹھیک نہیں ہوتے۔ اس معاملے میں پولیس کے دعوے کے مطابق ملزمان بندوق چھین کر بھاگ رہے تھے۔ ایسے میں شاید ان کی کارروائی ٹھیک تھی۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ ملزمان کو پھانسی کی سزا ملے لیکن قانونی عمل کے تحت۔ ہم چاہتے تھے کہ تیز رفتار انصاف ہو۔ پورے قانونی عمل کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ آج لوگ انکانٹر سے خوش ہیں لیکن ہمارا آئین ہے، قانونی عمل ہے۔”

دوسری طرف متعدد رہنماوں نے پولیس کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا، یہ تشویش کی بات ہے۔ عوام کا جس طرح انصاف کے نظام پر سے یقین اٹھتا جا رہا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے تمام حکومتوں کو مل کر سوچنا ہوگا اور کوئی قدم اٹھانا ہوگا کہ انصاف کے نظام کو کس طرح مستحکم کیا جائے۔”

سابق صدر پرنب مکھرجی کی بیٹی اور کانگریسی رہنما شرمشٹھا مکھرجی نے اس انکاونٹر پر سوالات کھڑے کیے اور تفتیش کا مطالبہ بھی کیا۔ انہوں نے کہا، کہیں پولیس نے عوام کے دبا کی وجہ سے تو انکانٹر نہیں کیا؟ آخر ایسی کون سی نوبت آ گئی تھی کہ قانون ہاتھ میں لینا پڑا؟ ہو سکتا ہے کہ چاروں ملزمان نے واقعی بھاگنے کی کوشش کی ہو لیکن ایک ساتھ چاروں ملزمان کو مار دینا ایک غیر یقینی سی صورت حال ہے۔ اس انکانٹر کی جانچ ہونی چاہیے۔”