بھارت میں قوم پرستی کا فروغ انتہائی خوفناک ہے

India Protest

India Protest

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کے معروف ارب پتی اور مخیر شخصیت جارج شوروش نے بھارت میں بڑھتی قوم پرستی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس تناظر میں مودی حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔

سوئٹزر لینڈ کے شہر داووس میں جاری اقتصادی عالمی فورم (ڈبلیو ای ایف) میں خطاب کرتے ہوئے امریکی ارب پتی جارج شوروش نے معاشی، سیاسی اور ماحولیات جیسے عالمی مسائل پر بات کرتے ہوئے کئی حکمرانوں کی پالیسیوں پر شدید نکتہ چینی کی۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ، چین اور روس جیسی عالمی قوتوں کے مستقبل پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اُن کے مطابق آمرانہ حکمرانوں کی صفیں بڑھتی ہی جار ہی ہیں۔

دنیا میں بڑھتی قوم پرستی یا نیشنل ازم کے معاملے پر بولتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس کا سب سے خوفناک چہرہ بھارت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس مناسبت سے انھوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا، “سب سے بڑا اور سب سے خوفناک دھچکا بھارت کو پہنچا ہے جہاں جمہوری طور پر منتخب مودی حکومت، بھارت کو ہندو قوم پرست ریاست بنانے میں لگی ہے، خود مختار مسلم خطے کشمیر میں سخت اقدامات مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔”

شوروش نے عالمی اقتصادی فورم میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے تمام مسائل کے باوجود بھی ابھی بھی آزاد معاشرت کے امکانات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا، “آزاد معاشرے کی اپنی کچھ کمزوریاں ہیں اسی طرح جابرانہ حکومتیں بھی خامیوں سے پُر ہیں۔” اس موقع پر شوروش نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے انہیں جعلی شخص اور خود پرست قرار دیا۔

بھارتی میڈیا میں جارج شوروش کے بیانات سرخیوں میں ہیں اور اس پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ سرکردہ صحافی آشیش گپتا کے مطابق شوروش کا یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے اور بھارت میں بھی ایک حلقہ اس طرح کے خدشات کا اظہار پہلے سے کرتا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چيت میں انھوں نے کہا، “ہندو ریاست کے قیام کے لیے وہ آئین سمیت سب کچھ ختم کرنے تلے ہیں۔ وہ نیا آئین بنانے کے راستے پر گامزن ہیں۔ یہ تو اس حکومت کا ایجنڈا ہے۔‘‘

چند روز پہلے ہی بھارت کے معروف سفارت کار اور قومی سلامتی کے سابق مشیر شیو شنکر مینن نے کہا تھا کہ موجودہ حکومت نے شہریت سے متعلق جو نیا قانون متعارف کیا ہے اس سے بھارت عالمی سطح پر الگ تھلگ ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ بہت سے ممالک اپنے مفاد کے لیے اس کے خلاف آواز نہ اٹھائیں لیکن یہ کسی بھی صورت میں بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔

مودی حکومت کی بعض متنازعہ پالیسیوں کے سبب ہی بھارت کی ڈیموکریسی انڈیکس میں بھی دس پوائنٹ کی کمی آئی ہے۔

برطانوی جریدے ‘دی اکانومسٹ’ نے بھی اسی کے تعلق سے اپنے تازہ مضمون میں مودی حکومت پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ جریدے نے اپنے سرورق پر “دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں مودی نے تقسیم کو فروغ دیا ہے” کی شہ سرخی لگائی۔ اس مضمون میں واضح کیا گیا کہ کس طرح بھارت میں عدم رواداری میں اضافہ ہوا ہے۔ جریدے کے مطابق بھارتی وزیراعظم اور ان کی جماعت بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

بی جے پی نے اکانومسٹ کے اس مضمون پر شدید تنقید اور اسے “متکبرانہ” قرار دیا۔ پارٹی میں خارجی امور کے انچارج وجے چترویدی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، “ہمیں لگا کہ برطانیہ ہمیں 1947 میں چھوڑ کر چلاگیا تھا، لیکن اکانومسٹ کے مدیر اب بھی نوآبادیاتی دور میں ہیں۔”