بھارتیہ جنتا پارٹی کو دہلی میں شکست کا سامنا

Arvind Kejriwal

Arvind Kejriwal

دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) تجزیہ کاروں کے مطابق ووٹرز نے بی جے پی کی مذہبی تقسیم اور فرقہ وارانہ سیاست کو رد کیا، البتہ اسے پچھلے الیکشن کے مقابلے میں کچھ زیادہ سیٹیں ملتی نظر آ رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گو دہلی کے انتخابی نتائج سے مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن بھارتی جمہوریت پر اس کے بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔

دہلی کی ستر رکنی اسمبلی کے حتمی نتائج آج شام تک متوقع ہیں۔

بی جے پی نے اس مرتبہ دہلی کے عوام کو درپیش مسائل کی بجائے متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شاہین باغ میں تقریباً دو ماہ سے جاری خواتین کے دھرنے کو اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنایا۔

بی جے پی اس معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرتی نظر آئی اور مظاہرے میں شامل خواتین پر غلط قسم کے الزامات لگائے۔وزیر داخلہ امیت شاہ نے دہلی کے الیکشن کو ‘شاہین باغ بمقابلہ وزیر اعظم مودی’ اور وزیراعظم مودی نے اسے ‘جمہوریت بمقابلہ شاہین باغ’ قرار دیا۔

دوسری طرف عام آدمی پارٹی نے پچھلے پانچ برسوں کے دوران اپنے کام کی بنیاد پر لوگو ں سے ووٹ مانگے۔ وزیر اعلی اروند کیجریوال کے ان اقدامات تحت لوگوں کو مفت میں بجلی اور پانی کی سہولت حاصل ہے جب کہ خواتین دہلی حکومت کی بسوں میں مفت سفر کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی حکومت نے محلہ کلینک کے نام سے شفاخانے کھولے جہاں شہریوں کو دوائیں مفت ملتی ہیں۔

دارالحکومت دہلی کو خصوصی انتظامی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں پولیس کا محکمہ مرکزی وزارت داخلہ کے تحت آتا ہے۔ جب کہ اصل انتظامی سربراہ لفٹننٹ گورنر ہوتا ہے۔ جس کی تقرری مرکزی حکومت کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر معاملات میں دہلی حکومت اور مرکز کے درمیان ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔

گذشتہ اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو 67نشستیں ملی تھیں اور بی جے پی صرف تین سیٹوں تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔

اس سے صرف چند ماہ قبل2014کے عام انتخابات میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی اور پہلی مرتبہ اپنے بل بوتے پر ہندو قوم پرست جماعت کی حکومت قائم ہوئی تھی۔

اس الیکشن میں بی جے پی نے کسی کو وزیر اعلی کے طورپر پیش نہیں کیا تھا۔ عام آدمی پارٹی نے اس کا بھی فائدہ اٹھایا اور عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ بی جے پی کے پاس وزیر اعلی کے عہدہ کے لائق کوئی لیڈر نہیں لہذا ووٹر کس پر بھروسہ کریں۔