بھارت کشمیر میں کیا کرنے کو ہے؟

Indian Forces

Indian Forces

نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت نے سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے ہندو زائرین اور سیاحوں کو اپنے زیر انتظام کشمیر سے جلد چلے جانے کی ہدایت کی ہے۔ اس ہدایت اور سکیورٹی فورسز کی تعداد میں اضافے کے باعث کشمیری شہری ممکنہ کریک ڈاؤن سے پریشان ہیں۔

نئی دہلی حکومت کشمیر میں امرناتھ یاترا کے لیے ہندو زائرین کی تعداد بڑھانے کے لیے کوشاں تھی, جس کے بعد یکم جولائی سے اب تک تین لاکھ سے زائد ہندو زائرین کشمیر کا رخ کر چکے ہیں۔ جمعہ دو اگست کے روز نئی دہلی حکومت نے سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے پینتالیس روزہ یاترا کے لیے کشمیر میں موجود لاکھوں ہندو زائرین اور بھارتی سیاحوں کو جلد از جلد واپس لوٹ جانے کی ہدایت کر دی۔

یہ تنبیہ ایک ایسے وقت پر جاری کی گئی ہے، جب بھارتی حکومت نے اس متنازعہ اور منقسم علاقے میں اپنے مزید کم از کم دس ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی شروع کر دی ہے۔ مسلح کشمیری باغیوں سے نمٹنے کے لیے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پانچ لاکھ سے زیادہ سکیورٹی اہلکار پہلے ہی سے تعینات ہیں۔

اس حکومتی تنبیہ کے بعد فوری طور پر ہزاروں بھارتی سیاح، طلبا اور زائرین نئی دہلی کے زیر انتظام کشمیر کے اس حصے سے لوٹ گئے ہیں۔

اس شورش زدہ علاقے میں مزید سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی اور حکومتی تنبیہ کے بعد وہاں بھارت مخالف مظاہرین اور سکیورٹی دستوں کے مابین کشیدگی میں اضافے کے نیا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔

ان تازہ بھارتی اقدامات کے بعد کشمیری شہریوں کو خدشہ ہے کہ حکومت علیحدگی پسندوں اور مظاہرین کے خلاف نیا کریک ڈاؤن شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلوں نے کشمیری ماؤں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو فوج پر پتھراؤ کرنے سے روکیں۔

جنرل ڈھلوں نے کہا کہ ان کے ریکارڈ کے مطابق مقامی ‘دہشت گردوں‘ کی اکثریت نے جنگجو بننے کا راستہ پتھراؤ کرنے ہی سے شروع کیا تھا۔ ڈھلوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ امرناتھ یاترا کے راستے میں ایک سنائپر رائفل اور مبینہ طور پر پاکستان میں تیار کردہ بارودی سرنگ بھی ملی ہے۔

اس صورت حال میں کشمیری شہری گہری تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں اور کسی ممکنہ عسکری کریک ڈاؤن اور کرفیو کے امکانات کے پیش نظر علاقے کے لوگوں نے اشیائے خورد و نوش ذخیرہ کرنا شروع کر دی ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارتی آئین میں ترمیم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دینا اپنے انتخابی منشور میں بھی شامل کر رکھا تھا۔

مودی حکومت بھارتی آئین کے آرٹیکل 35 اے کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے، جس کے بعد بھارتی شہری کشمیر میں جائیدادیں خرید سکیں گے۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ اس فیصلے سے کشمیر میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور خطے میں معاشی بہتری بھی آئے گی۔

علیحدگی پسند کشمیری جماعتوں کے علاوہ بھارت نواز سمجھے جانے والے کشمیری رہنما بھی ایسے کسی بھی ممکنہ اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں۔

اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت کے ایک اعلیٰ سکیورٹی اہلکار نے نئی دہلی کے تازہ اقدامات کے حوالے سے بتایا، ”ہمیں واضح طور پر معلوم نہیں کہ یہ (اقدامات) کس بارے میں ہیں لیکن یقینی طور پر یہ ایک ایسے فیصلے سے متعلق ہیں، جس کے سکیورٹی کے حوالے سے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔‘‘

نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کشمیری علیحدگی پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا، ”آرٹیکل 35 اے کو ختم کر کے ریاست کی مسلم اکثریتی شناخت کو بدل دینے کی کوششیں کرنے سمیت کئی افواہیں اس وقت گردش کر رہی ہیں۔ ماضی کی طرح اب بھی عوام اور رہنماؤں کو ایسے اقدامات کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار رہنا ہو گا۔‘‘

کشمیری شہریوں کے خدشات اور موجودہ غیر یقینی صورت حال کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے بھارت نواز کشمیری رہنما عمر عبداللہ نے اپنے ایک پیغام میں لکھا، ”میرے کئی سوالات ہیں لیکن جواب ایک بھی نہیں۔ آج میری کشمیر سے متعلق اہم عہدوں پر فائز کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی اور ان میں سے کوئی بھی کچھ بھی نہیں بتا پایا، اور میں چھ سال تک کشمیر کا وزیر اعلیٰ رہا ہوں۔ تو عام کشمیریوں کے مصائب کے بارے میں سوچیے، جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کس بات پر یقین کریں۔‘‘

رواں برس فروری کے مہینے میں پلوامہ میں حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی انتہائی بڑھ گئی تھی۔ بھارتی سکیورٹی حکام نے اس کے بعد سے کم از کم ڈھائی سو کشمیری علیحدگی پسند رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا۔

روئٹرز کے مطابق بھارت نے گرفتار کیے گئے ان تمام کشمیری رہنماؤں کو ان کے خلاف کوئی بھی باقاعدہ الزام عائد کیے بغیر اب تک حراست میں رکھا ہوا ہے اور ان گرفتاریوں کا مقصد غیر مسلح علیحدگی پسند تحریک کو کمزور بنانا ہے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ نئی دہلی حکام بھارت میں موجود غیر ملکی سفیروں پر بھی دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ بھی علیحدگی پسند کشمیری رہنماؤں سے نہ ملیں۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے حال ہی میں کشمیر کے معاملے پر بھارت اور پاکستان کے مابین ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ اس وقت انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نے بھی انہیں بطور ثالث اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس پر بھارت نے صدر ٹرمپ کے اس بیان کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر کا معاملہ پاکستان اور بھارت کے مابین ہے اور اسے دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جائے گا۔

گزشتہ روز بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کی اپنی پیشکش دہرائی تھی تاہم بھارت نے اسے ایک مرتبہ پھر مسترد کر دیا تھا۔

حالیہ دنوں کے دوران پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو دونوں حصوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے والی لائن آف کنٹرول پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے ایک دوسرے پر فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے ہیں۔

پاکستانی اور بھارتی افواج کے مطابق کنٹرول لائن پر گزشتہ کئی دنوں سے جاری فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں دونوں طرف کئی عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ فائرنگ اور گولہ باری کے باعث گزشتہ ہفتے پاکستانی حکام نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والے چینی شہریوں کو بھی وہاں سے نکال لیا تھا۔