بھارت: سوشل میڈیا کے لیے نئے ضابطے، اپوزیشن برہم

Social Media

Social Media

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) نئے ضابطے کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو ایک مقررہ وقت کے اندر قابل اعتراض مواد حذف کر دینا ہو گا اور انہیں ‘شر انگیز‘ ٹوئٹس یا پیغام کا ماخذ بھی بتانا ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس اقدام پرنکتہ چینی کی ہے۔

بھارت سرکار نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، آن لائن اسٹریمنگ سروسز اور ڈیجیٹل نیوز کو’ لگام دینے کے لیے‘ نئے ضابطوں کا اعلان کیا ہے۔ فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان نئے ضابطوں کا خاصا اثر پڑے گا۔

نئے ضابطے کے تحت کسی متنازعہ ‘آن لائن کنٹینٹ‘ مثلاً ‘فیک نیوز‘ اور پرتشدد مواد کے متعلق شکایتوں کے ازالے کے لیے سوشل میڈیا کمپنیوں کو ایک باقاعدہ میکانزم قائم کرنا ہوگا اور متعلقہ عہدیداروں کے ناموں اور ان کی دیگر تفصیلات حکومت کو بتانا ہوگی۔ ان عہدیداروں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ایک دن کے اندر شکایتوں کی وصولیابی کی توثیق کریں اور پندرہ دنوں کے اندر اسے حل کریں۔

سوشل میڈیا کمپنیوں نے کہا ہے کہ وہ ان نئے ضابطوں کا مطالعہ کررہی ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے گھبراہٹ میں ایسے اقدامات کررہی ہے۔

بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے قومی سکریٹری اتول کمار انجان نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا ”میرا خیال ہے حکومت گھبرا گئی ہے کیونکہ اب اس کی حقیقت اور اس کی ناکامی سوشل میڈیا کے ذریعہ عام ہورہی ہے۔ ورنہ پچھلے برسوں میں کیا ان کو یہ چیز نظر نہیں آرہی تھی جب بی جے پی اور آر ایس ایس کے80 ہزار لوگ اس میں سرگرم تھے او ر35 ہزار لوگوں کو اس کام کے لیے تنخواہ پر رکھا گیا تھا۔”

اتول کمار انجان مزید کہتے ہیں ”بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے ذریعہ گندی گندی باتیں، فرقہ واریت اور ‘ماب لنچنگ‘ کو سوشل میڈیا کے ذریعہ پھیلایا جارہا تھا۔ آخر اس وقت اسے کیوں کنٹرول نہیں کیا گیا ؟”

مارکسی رہنما نے یاد دلایا کہ چند برس قبل بی جے پی آئی ٹی سیل مدھیہ پردیش کے پندرہ افراد پاکستانی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی کے لیے کام کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے لیکن اس وقت بھی حکومت کی آنکھیں نہیں کھلیں تاہم ”اب جب ان کا پول کھل رہا ہے تو یہ اس کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ قانون نہیں چلے گا اور اس کے خلاف آواز بھی بلند کی جائے گی۔”

فیس بک نے بھارت سرکار کے نئے ضابطوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان ضابطوں کا تفصیلی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔

فیس بک کے ایک ترجمان نے کہا،” ایک کمپنی کے طورپر ہمارا ہمیشہ سے یہ واضح موقف رہا ہے کہ ہم انٹرنیٹ کو درپیش آج کے سخت ترین چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تمام ضابطوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ فیس بک اپنے پلیٹ فارم پر لوگوں کے آزادانہ اور محفوظ اظہار خیال کو یقینی بنانے کے عہد کا پابند ہے۔ ہم نئے ضابطوں کا تفصیلی مطالعہ کریں گے۔”

فیس بک نے مزید کہا ہے کہ وہ بھارتی وزیر کی طرف سے ملک کے تئیں سوشل میڈیا کے مثبت کردار کے اعتراف کا خیرمقدم کرتا ہے۔ اس نے کہا ”ہم اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کام کرتے رہیں گے کہ ہمارا پلیٹ فارم بھارت کی ڈیجیٹل تبدیلی کے پرعزم منصوبے کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔”

ٹوئٹر نے کہا کہ اگر اس منصوبے سے ”شہریوں کے بنیادی حقوق اور ان کی آن لائن آزادی کی حفاظت” کرنے میں مدد ملتی ہے تو یہ ضابطے سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔

واٹس ایپ نے فی الحال نئے ضابطوں کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر بیٹھے کسان مظاہرین کا کہنا ہے کہ متنازعہ قوانین واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا اور وہ چھ ماہ کی تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔

گزشتہ ماہ یعنی جنوری کی 26 تاریخ کو بھارتی دارالحکومت دہلی میں پولیس اور احتجاجی کسانوں کے درمیان پرتشدد تصادم کے حوالے سے بعض ٹوئٹس کو ٹوئٹر نے ہٹانے سے انکار کردیا تھا۔ کمپنی نے گوکہ حکومت کی درخواست پربعض ٹوئٹس کو عارضی طورپر حذف کردیا لیکن بعد میں انہیں بحال کردیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا اس وقت کسانوں اور حکومت کے درمیان تعطل کا ایک اہم میدان جنگ بنا ہوا ہے۔

بھارتی کسان متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف گزشتہ نومبر سے نئی دہلی میں مظاہرے کررہے ہیں۔ انہوں نے دہلی میں داخل ہونے والی تمام سرحدوں کا تقریباً محاصرہ کررکھا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے بھی انہیں دہلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے خاردار تاروں کی باڑ لگادی ہے، خندقیں کھود دی ہیں اور بڑی بڑی کیلیں سڑکوں پر لگا دی گئی ہیں۔

بھارتی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے جمعرات کے روز نئے ضابطوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے لیے بھی باضابطہ نظم ہونا چاہیے۔ اگر سوشل میڈیا کمپنیاں بھارت میں تجارت کرنا چاہتی ہیں تو انہیں دوہرے معیارسے بچنا ہوگا۔

بھارتی وزیرقانون کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے متعلق بہت ساری شکایتیں موصول ہورہی ہیں۔ پارلیمان میں بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ جرائم پیشہ بھی اس کا استعمال کررہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے لیے بھی ایک باقاعدہ نظام قائم کیا جائے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ ضابطوں کی خلا ف ورزی کرنے والی سوشل میڈیا کمپنیوں کے خلاف بھارتی آئی ٹی قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔