بھارت کی پانچ ریاستوں میں انتخابات

 Narendra Modi and Mamta Banerjee

Narendra Modi and Mamta Banerjee

کیرالا (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کی پانچ اہم ریاستوں میں اس ماہ کی 27 تاریخ سے ووٹنگ شروع ہو گی، جس کے لیے انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ یہ انتخابات چونکہ کئی مرحلوں میں ہونے ہیں اس لیے اپریل کے اختتام تک ووٹنگ مکمل ہو گی۔

بھارت کی پانچ اہم ریاستوں میں اس ماہ کی 27 تاریخ سے ووٹنگ شروع ہو گی، جس کے لیے انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ یہ انتخابات چونکہ کئی مرحلوں میں ہونے ہیں اس لیے اپریل کے اختتام تک ووٹنگ مکمل ہو گی اور دو مئی کو ووٹوں کی گنتی کی جائے گی۔

پانچ ریاستوں میں سے تین، تامل ناڈو، کیرالا اور پڈو چیری کا تعلق جنوبی بھارت سے ہے جہاں اپریل کے پہلے ہفتے میں ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ آسام اور مغربی بنگال کا تعلق مشرقی بھارت سے ہے۔ ریاست مغربی بنگال میں آٹھ مرحلوں میں پولنگ ہو گی جبکہ آسام میں تین مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔

ایک ایسے وقت جب بھارت میں تیل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور بے روز گاری کی شرح بہت زیادہ ہے نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی مرکزی حکومت کے لیے یہ انتخابات کسی امتحان سے کم نہیں ہیں۔

ریاست مغربی بنگال میں گزشتہ دس برسوں سے ممتا بینرجی کی علاقائی جماعت ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی حکومت ہے اور بی جی پی کی سب سے زیادہ توجہ اسی ریاست پر ہے۔ ریاستی اسمبلی کی 294 سیٹیں ہیں، جس کے لیے دونوں جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ گزشتہ روز بی جے پی نے دارالحکومت کولکتہ میں ایک بڑی ریلی نکالی جس سے وزير اعظم نریندر مودی نے بھی خطاب کیا۔

اس موقع پر مودی نے بنگال میں اصل تبدیلی کا نعرہ لگایا اور ریاستی وزیر اعلی پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا،’’ممتا بینرجی کے اقتدار کے اب بہت دن کم بچے ہیں۔ میں بنگال کی ترقی، سرمایہ کاری اور بنگالی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کی یقین دہانی کراتا ہوں۔‘‘

ریاست مغربی بنگال میں ممتا بینرجی سے قبل تقریباﹰ تیس برسوں تک بائیں بازو کا محاذ برسر اقتدار تھا اور دائیں بازو کی موجودگی برائے نام رہی ہے تاہم سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس بار بنگال کے انتخابات میں مقابلہ بی جے پی اور ممتنا بینرجی کی جماعت ٹی ایم سی کے درمیان ہو گا۔

سینئیر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار شبھوجیت بگچی کہتے ہیں کہ بائیں بازو کے محاذ کے حوالے سے معروف ریاست مغربی بنگال میں بھی اب بی جے پی ایک بڑی طاقت ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چيت میں انہوں نے کہا،’’بنگال میں ہندو قوم پرستی کی جڑیں بہت پرانی ہیں تاہم بائیں بازو کے محاذ کے دور اقتدار میں اس کا اثر کم ہو گیا تھا۔ گزشتہ کچھ برسوں سے بی جے پی نے اس کی اس انداز سے آبیاری کی ہے کہ ریاست بنگال بھی ہندو قوم پرستی کی آمجگاہ بن چکا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ دوسری جماعتوں کے مقابلے میں ریاست کی سیاست پر اب بھی ممتا بینرجی کی گرفت زیادہ مضبوط ہے،’’تاہم، دیکھنا یہ ہو گا کہ بی جے پی کے لیڈر بنگال پر اپنی طاقت اور پیسہ کنتا خر چ کرتے ہیں۔ اگر ممتا جیت بھی جائیں تو بھی بی جے پی پیسوں کی طاقت سے ان کی پارٹی کو توڑ کر انہیں اقتدار سے محروم کر سکتی ہے۔‘‘

گزشتہ روز ہی ریاست مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے بالی وڈ کے معروف اداکار متھن چکرورتی بھی بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ کولکتہ میں مودی کے ساتھ انہوں نے بھی ریلی سے خطاب کیا اور اپنی ایک فلم کا معروف ڈائیلاگ دوہرایا، “میں ایک عام سانپ نہیں بلکہ کوبرا ہوں، جو ایک بار ڈسنے سے ہی جان لے سکتا ہے۔‘‘

ابتدا میں متھن چکرورتی کا تعلق ماؤ نواز تنظیم سے بتایا جاتا ہے اور یہیں سے ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز ہوا۔ تاہم کمیونسٹ پارٹی کے دور اقتدار میں ان کے مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی سے بھی گہرے تعلقات رہے۔

سن 2014 میں انہوں نے ٹی ایم سی میں شمولیت اختیار کی اور رکن پارلیمان بنے۔ پھر بعد میں استعفی دے دیا اور اب بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ کچھ دن پہلے ہی انہوں نے سخت گیر ہندو نظریات کی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی۔

آسام
بنگال کی پڑوسی ریاست آسام میں اسمبلی کی 126 نشستیں ہیں۔ یہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے جہاں اس کے مد مقابل کانگریس کی قیادت والا اتحاد ہے۔ بنگلہ دیش سے متصل سرحد پر بسے آسام میں مسلمانوں کی آبادی تیس فیصد ہے اور اس ریاست میں شہریت ترمیمی بل اور نیشنل رجسٹر فار سٹیزن (این آر سی) سب سے اہم سیاسی موضوع ہے۔

سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ریاست میں جہاں حکومت مخالف رجحان کا سامنا ہے وہیں اس کی ایک اہم اتحادی جماعت کے الگ ہونے سے اس کے لیے مشکلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شبھوجیت بگچی کہتے ہیں،’’چونکہ آسام میں بھی بی جے پی کی حالات پہلے جیسی نہیں رہے اس لیے بھی وہ بنگال پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کر رہی ہے۔‘‘

جنوبی ریاست تامل ناڈو میں اسمبلی کی کل 234 سیٹیں ہیں۔ اس ریاست میں بی جے پی نے حکمراں علاقائی جماعت اے آئی ڈی ایم کے ساتھ اتحاد کیا ہے اور محض 20 سیٹوں پر انتخاب لڑ رہی ہے تاہم اسے اقتدار میں آنے کا پورا یقین ہے۔ اس کے مقابلے اپوزیشن ڈی ایم کے اور کانگریس کا متحدہ محاذ ہے۔

جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی پروین کمار کہتے ہیں کہ ریاست میں حکمراں جماعت اے آئی ڈی ایم کے کو شدید حکومت مخالف رجحان کا سامنا ہے اور اس کی رہنما جے للتا کے نہ ہونے سے بھی پارٹی کافی کمزور ہو گئی ہے،’’کانگریس اور ڈی ایم کا اتحاد بہت مضبوط پوزیشن میں ہے اور اس ریاست میں بی جے پی کا اثر و رسوخ تو نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘

قدرتی حسن اور مناظر سے مالا مال جنوبی ریاست کیرالا تعلیم کے اعتبار سے بھارت کی سب سے ترقی یافتہ ریاست ہے، جہاں اسمبلی کی 140 سیٹیں ہیں۔ یہاں عموما ایک مرتبہ کانگریس اتحاد اور دوسری مرتبہ میں بائیں بازو کا محاذ اقتدار میں آتا ہے۔ اس بار بھی انہیں دو میں سخت مقابلہ ہے۔

صحافی پروین کا تعلق کیرالا سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بی جے پی کیرالا میں بھی اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے کافی کوششیں کر رہی ہے تاہم زمینی حقائق کہتے ہیں کہ وہ بہت کمزور ہے۔ صحافی پروین کہتے ہیں، ’’ہندو قوم پرستی کا نظریہ یہاں بھی پھیلانے کی پوری کوشش ہے۔ اس سے ان کے ووٹ شیئر میں بھی اضافہ ہو گا۔ تاہم ان کے لیے اپنی ایک روایتی سیٹ سے آگے بڑھانا بہت مشکل ہے۔‘‘

جنوبی ریاست تامل ناڈو کے پاس ہی پڈو چیری ایک چھوٹی ریاست ہے، جس میں کل 33 سیٹیں ہیں۔ اس میں پانچ نشستیں پسماندہ برادری کے لیے مخصوص ہیں۔ اس میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی جو چند روز پہلے ہی گر گئی تھی اور اب وہاں صدارتی راج نافذ ہے۔

بی جے پی نے اس ریاست میں اپنے قدم جمانے کے مقصد سے چھوٹی چھوٹی علاقائی جماعتوں سے اتحاد کیا ہے جبکہ کانگریس نے ڈی ایم کے پارٹی کے ساتھ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔