’بھارتی کسانوں کا احتجاج، پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے‘

Protest

Protest

نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارہ آئی ایس آئی کسانوں کے احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اسی تناظر میں حکام نے سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے۔

بھارت میں مودی حکومت کے متعارف کردہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کو اب سات ماہ ہو چکے ہیں اور اسی مناسبت سے 26 جون ہفتے کے روز درجنوں کسان تنظیموں کے ورکرز نئی دہلی سمیت ریاستی دارالحکومتوں کی جانب احتجاجی مارچ کے لیے بڑی تعداد میں جمع ہوئے، تاہم انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے حکام نے جگہ جگہ پر رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔

بھارتی کسانوں کی نمائندہ تنظیموں نے اعلان ک رکھا ہے کہ وہ حکمرانوں تک اپنی بات پہنچانے کے لیے تمام صوبائی دارالحکومت میں گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے۔ تاہم بیشتر ریاستوں میں انہیں اس سے روکنے کے لیے بڑی تعداد میں پولیس فورسز تعینات ہیں۔ دارالحکومت دہلی کی سرحد اور اس کے مضافاتی علاقوں میں کسانوں کا احتجاجی دھرنا گزشتہ دسمبر سے جاری ہے اور پولیس نے آج کے احتجاجی مارچ کو روکنے کے لیے وہاں بھی سخت انتظامات کیے ہیں تاکہ مظاہرین دہلی میں نہ داخل ہو پائیں۔

اس دوران بھارتی خبر رساں اداروں نے خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے یہ اطلاع دی ہے کہ دہلی میں کسانوں کے احتجاجی مارچ کو پاکستانی خفیہ ادارے ‘انٹر سروس انٹیلیجنس‘ (آئی ایس آئی) سے سبوتاژ ہونے کا خطرہ لاحق ہے اور اس بارے میں پولیس حکام کو ریڈ الرٹ جاری کر دیا گيا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں نے پولیس اور دیگر سلامتی کے اداروں کو ایک خط لکھ کر متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے، ”پاکستان کی آئی ایس آئی پراکسی سکیورٹی اہلکاروں کو اشتعال دلا کر کسانوں کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔‘‘ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اسی تناظر میں دارالحکومت دہلی میں سکیورٹی کو زیادہ سخت کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

گزشتہ برس دسمبر میں جب کسانوں نے حکومتی قوانین کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز کیا تھا تو اس وقت بھی وزير اعظم نریندر مودی کے ایک وزیر نے کہا تھا کہ متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کے پیچھے “پاکستان اور چین کا ہاتھ” ہے۔ تاہم کسان تنظیموں اور دیگر جماعتوں نے اس بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔

دارالحکومت دہلی میں کسانوں کے مارچ کے پیش نظر کئی میٹرو اسٹیشنوں کو بند کر دیا گیا ہے جبکہ تمام سرحدی راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے تاکہ کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے باز رکھا جا سکے۔

واضح رہے کہ رواں برس 26 جنوری کو کسانوں کی دہلی میں نکالی جانے والی ریلی کے دوران خاصی زیادہ ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی تھی۔ بہت سے مظاہرین اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ فصیل بند شہر میں پہنچ کر لال قلعے میں داخل ہو گئے تھے اور بعض افراد نے اسی مقام پر سکھ مذہب کا پرچم بھی لہرا دیا تھا جہاں سے بھارتی وزیر اعظم پندرہ اگست کے روز قوم سے خطاب کرتا ہے۔

جمعے کی شام کو پڑوسی ریاست اتر پردیش، ہریانہ اور پنجاب سے ہزاروں کسان اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ دہلی کے مضافات میں ٹکری اور سنگور کے سرحدی مقامات پر جمع ہو گئے تھے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کسان گزشتہ سات ماہ سے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ لاکھوں کسان پابندیوں کے باوجود اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ دہلی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کسانوں کے اس احتجاجی مارچ کا نعرہ ہے، “کھیتی بچاؤ، جمہوریت بچاو”۔ متعدد کسان تنظیموں کی قیادت کسان رہنما مہندر سنگھ ٹکیت کر رہے اور ان کا کہنا ہے کہ لاکھوں کسان اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ چل پڑے ہیں اور حکومت لاکھ کوشش کرے ان کا مارچ جاری رہے گا۔

کسانوں کی بڑی تنظیم ‘بھارتیہ کسان یونین’ کے ایک رہنما درشن پال نے ایک بیان میں کہا، “گزشتہ سات مہینوں سے کسان تنظیموں کی جانب سے دنیا کا سب سے بڑا اور طویل ترین احتجاجی مظاہرہ جاری ہے۔ اس میں ملک کے مختلف حصوں سے ہزاروں افراد شریک ہوتے رہے ہیں اور اب ہم نے اپنی کوششیں مزید تیز تر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔”

کسان تنظیموں کے مطالبات
مودی حکومت نے سن 2020 جن متنازعہ زرعی قوانین کو متعارف کرايا تھا، ان کے خلاف ملک کے متعدد علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت اور کسانوں کے درمیان اب تک بات چیت کے گیارہ ادوار بھی ہو چکے ہیں تاہم اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا۔

حکومت نے ان قوانین میں ترامیم کا وعدہ کیا ہے لیکن کسان تنظیمیں ان قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہيں۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے انہیں اناج کی فروخت کے عوض مناسب دام نہیں ملیں گے اور مقامی منڈیوں پر نجی تاجروں اور بڑے کارپوریٹ اداروں کا قبضہ ہو جائے گا۔