انکوائری کمیٹی اور ریاست مدینہ

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر

سیاسی جماعت کا نام تحریکِ انصاف، نعرہ انصاف کی فراہمی اور عزم نئے پاکستان میں ریاستِ مدینہ جیسے نظام کی تشکیل۔ حکمران شاید بے خبر کہ ریاستِ مدینہ کی بنیاد ہی عدل وانصاف پر رکھی گئی کیونکہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں متعدد بار عدل وانصاف کا حکم دیا گیا۔ حضرت عمر کا قول ہے کہ اگر عدل پلڑا کسی کی وجاہت کے خوف سے جھک جائے تو قیصروکسریٰ کی حکومت اور اسلامی مملکت میں کیا فرق ہوا۔ امیرالمومنین حضرت علی کے دَورِ حکومت میںقاضی شریح کی عدالت کا فیصلہ تاریخِ اسلام کا روشن باب۔ واقعہ یوںہے کہ حضرت علی نے اپنے دَورِ خلافت میں کوفے کے بازار میں ایک نصرانی کو اپنی گم شُدہ زرہ بیچتے دیکھا۔ حضرت علی نے فرمایا کہ یہ زرہ اُن کی ہے لیکن نصرانی نے یہ دعویٰ مسترد کر دیا۔ معاملہ قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا۔ اُنہوں نے حضرت علی سے شہادت طلب کی۔ حضرت علی نے اپنے بیٹے حضرت حسن اور غلام قنبر کو بطور گواہ پیش کیا لیکن قاضی صاحب نے اُن کی گواہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت علی نے قاضی صاحب سے کہا ”کیا آپ کے نزدیک حسن قابلِ اعتبار نہیں؟”۔ قاضی صاحب نے جواب دیا ”بات شخصیات کے اعتبار پر فیصلے کی ہوتی تو آپ کا دعویٰ ہی کافی تھا مگر معاملہ عدل کے اصول کا ہے۔ یہ دونوں آپ کے زیرِاثر ہیں اِس لیے اِن کی گواہی قبول نہیں کی جاسکتی”۔ فیصلہ نصرانی کے حق میں ہوا اور امیرالمومنین کا دعویٰ مسترد کر دیا گیا۔ نصرانی اِس فیصلے پر حیرت زدہ ہوکر بولا ”یہ تو پیغمبرانہ عدل ہے کہ امیرالمومنین کو بھی عدالت میں آنا اور اپنے خلاف فیصلہ سننا پڑتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ زرہ امیرالمومنین ہی کی ہے۔ یہ اُن کے اونٹ پر سے گِر گئی تھی اور میں نے اُٹھالی”۔

اسلامی تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے داعی اپنے اڑھائی سالہ دورِحکومت میں نہ صرف یہ کہ عدل کی کوئی ایسی مثال پیش کر سکے بلکہ اُن کے معیارِ عدل پر اب انگلیاں بھی اُٹھنے لگی ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس ہی کو لے لیجئیے جو گزشتہ 7 سالوں سے التوا میں پڑا ہے اور حکمران ہر تاخیری حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ تحریکِ انصاف کے اکاؤنٹس شفاف ہیں۔ فارن فنڈنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کیس سننے کا اختیار ہی نہیں۔ جب بات نہ بنی تو کہہ دیاکہ نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کے پارٹی فنڈز کی بھی تحقیقات کی جائیںاور آخر میں تان یہاں ٹوٹی کہ اگر فارن فنڈنگ ہوئی ہے تو اِس کے ذمہ دار ایجنٹس ہیں، پارٹی کا اِس سے کوئی تعلق نہیں۔ انصاف کے نام پر بنائی گئی اِس جماعت نے متعدد بار التوا کی درخواستیں دیں، اعلیٰ عدالتوں سے سٹے آرڈرز لیے گئے، بار بار وکیل بدلے اور ہر تاخیری حربہ استعمال کرتے ہوئے معاملے کو لٹکانے کی کوشش کی۔ اگر یہی نظامِ عدل ہے کہ ایک منتخب وزیرِاعظم کے کیس کی انکوائری کے لیے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ 6 ماہ کی مدت مقرر کرکے نگران جج بھی مقرر کر دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں 3 بار کا منتخب وزیرِاعظم پابندِ سلاسل ہو جاتاہے اور دوسرے وزیرِاعظم کے کیس کو 7 سالوں تک یوں لٹکایا جاتا ہے کہ اپوزیشن الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج پر مجبور ہو جاتی ہے تو پھر ایسے نظامِ انصاف پر انگلیاں تو اُٹھیں گی۔

کچھ ایسا ہی معاملہ براڈ شیٹ سکینڈل کا ہے جسے پاناما 2 قرار دیا جا رہاہے۔ پرویزمشرف کے دَور میں نیب نے 200 شخصیات پر مشتمل سیاستدانوں، اشرافیہ اور بیوروکریٹس کے بیرونِ ملک خفیہ اثاثوں کا سراغ لگانے کے لیے برطانوی کمپنی براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ کیا۔ بعد ازاں نیب نے خود ہی یہ معاہدہ منسوخ کر دیا جس پر براڈ شیٹ عدالت میں چلی گئی اور بالآخر عدالتی فیصلے کے تحت نیب کو دیگر لوگوں کے اثاثوں کی انکوائری کی مَد میں 29 ملین ڈالرزاور 20 ملین ڈالرز کی ادائیگی ایون فیلڈ اور نوازشریف کے دوسرے اثاثوں پر براڈشیٹ کو ادا کرنی پڑی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے اربوں روپے تو ادا کردیئے لیکن بیرونِ ملک اثاثوں میں سے کسی ایک کا سراغ بھی نہ لگایا جا سکا۔ گویا ”صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے”۔ اِس سارے معاملے کی نیب براہِ راست ذمہ دار ہے کیونکہ اسی نے 200 افراد کے نام براڈ شیٹ کو دے کرمعاہدہ کیا تھا کہ اُن کے بیرونِ ملک اثاثوں کا سراغ لگایا جائے اور بعدازاں 2003ء میں نیب خود ہی اِس معاہدے پر قائم نہ رہ سکی جس پر حکومت کو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے ذمہ داروں کے خلاف حکومت نے براڈشیٹ انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے جس کا سربراہ جسٹس (ر) عظمت سعید کو مقرر کیا گیا ہے جس کی سربراہی کو نوازلیگ اور پیپلزپارٹی، دونوں نے یکسر مسترد کر دیاہے جس سے ایک نیا محاذ کھل گیا ہے۔

براڈشیٹ معاملے پر بنائی گئی کمیٹی کسی بھی صورت میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی کیونکہ جسٹس عظمت سعید کی شہرت شریف خاندان کے شدیدترین مخالف کی ہے۔ شریف خاندان کے مطابق پانامہ جے آئی ٹی کے لیے اکٹھے کیے گئے سارے لوگ اُس کے سیاسی مخالفین میں سے تھے اور یہ سب نام جج صاحب کی مشاورت ہی سے طے پائے۔ اِس کے علاوہ پانامہ کیس کی سماعت کے دوران بھی جج صاحب کا متنازع کردار سامنے آتا رہا۔ ایک متنازع شخص کو براڈشیٹ تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ بنانا کسی بھی صورت میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ جسٹس عظمت سعید کے بارے میں شنیدہے کہ وہ وزیرِاعظم عمران خاں کے ذاتی دوست ہیںاِسی لیے وہ شوکت خانم ہسپتال کی گورننگ باڈی کے رکن بھی ہیں۔ مزید برآں جب 2000ء میں نیب کا براڈشیٹ سے معاملہ طے پا رہا تھاتب جسٹس عظمت سعید نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل تھے۔ اِس لیے اُن سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ نیب کی براڈشیٹ کے ساتھ معاہدے میں کی جانے والی غلطیوں کا غیرجانبداری سے جائزہ لے سکیں گے۔

غیرجانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق جسٹس عظمت سعید(ر) کو تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی کمیٹی سے خود ہی معذرت کر لینی چاہیے کیونکہ اُن کی سربراہی میں کی گئی تحقیقات کے نتائج نوازلیگ کو قبول ہوںگے نہ پیپلزپارٹی کو اور نہ ہی اپوزیشن کی کسی دوسری جماعت کو۔ بہتر تو یہی ہے کہ یہ سارا معاملہ سپریم کورٹ کے سپرد کر دیا جائے اور وہی اپنی نگرانی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کرے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے لیکن حکمرانوں کے سابقہ رویے کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ وزیرِاعظم عمران خاں کے پاس ایک موقع تھا کہ وہ اِس معاملے کی شفاف اور غیرجانبدارانہ انکوائری کرواتے اور انصاف پر جمی دھول کو صاف کروا کر سچ کو سامنے لاتے لیکن اُنہوں نے ابتدا ہی میں اِس معاملے کو متنازع بنادیا اور اب اُن کے وزیرمشیر بلند آہنگ سے جسٹس عظمت سعید کے حق میں ایسے دلائل دے رہے ہیں جنہیں کوئی بھی عقیل وفہیم شخص تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ جہاں عدل کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھانے کی تگ ودَو کی جا رہی ہو، وہاں ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا خواب دیکھنا احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے۔ قوم کو وزیرِاعظم عمران خاں سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی ساری امیدیں ریت کا محل ثابت ہو رہی ہیں۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر