ایران جوہری معاہدے کی عجلت میں ہے، مغرب وقت کا ضیاع بند کرے: وزیر خارجہ

Amir Abdullahian

Amir Abdullahian

ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا ہے کہ ان کا ملک عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات میں کسی معاہدے پر پہنچنے کی ’’جلدی‘‘میں ہے لیکن ان کے بہ قول مغربی طاقتیں محض وقت ضائع کررہی ہیں۔

ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی فارس کی رپورٹ کے مطابق وزیرخارجہ امیرعبداللہیان نے تہران میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’ایران ایک بہترمعاہدے تک پہنچنے کی جلدی میں ہے۔اس سے ہمارے حقوق اور مفادات کا تحفظ ہوگا‘‘۔

انھوں نے مغربی طاقتوں پرزور دیا کہ وہ ’’وقت کے ساتھ کھیلنا‘‘بند کریں۔انھوں نے 2015ء میں طے شدہ جوہری معاہدے کے باضابطہ نام ’مشترکہ جامع لائحہ عمل‘ کا مخفف استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’مغربی طاقتوں کو مجوزہ متن اوروقت کے ساتھ کھیلنے کے بجائے جے سی پی او اے کے تحت اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے کاحقیقی ارادہ ظاہرکرنا ہوگا‘‘۔

امیرعبداللہیان نے کہا کہ ’’اگرامریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی “جے سی پی او اے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں تو قلیل مدت میں ایک اچھا معاہدہ پہنچ میں ہے‘‘۔

اس معاہدے پر دستخط کرنے والے چھے ممالک ایران، روس، چین، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے درمیان اس وقت ویانا میں بات چیت ہو رہی ہے جبکہ امریکا اس معاہدے کا حصہ نہیں اور وہ اس میں دوبارہ شمولیت کے لیے ایران کے ساتھ بالواسط مذاکرات کررہا ہے۔

امریکا کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 2018ء میں اس معاہدے سے یک طرفہ طورپردستبردار ہونے کا اعلان کردیاتھا۔اب ایران واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکاری ہے اور اس وجہ سے وہ گذشتہ سال اپریل سے بالواسطہ طور پرمذاکرات میں حصہ لے رہا ہے۔ان کا مقصد ایران کو معاہدے کی تعمیل میں واپس لانا اور اس میں امریکا کی واپسی کو آسان بنانا ہے۔

امیرعبداللہیان کاکہنا تھا کہ امریکا ثالثوں کے ذریعے ایران کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے خیرسگالی کی بات کرتا ہے لیکن اب تک اس نے ایسا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیاہے جوامریکیوں کے خیرسگالی کے دعوے کی تائید کرے۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ آیا مذاکرات کاموجودہ دور آخری ہوگا،تو انھوں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ’’دوسری طرف سے دھمکیاں اورانتباہ مذاکرات کے اختتامی نقطہ کاتعیّن نہیں کریں گے بلکہ مذاکرات کی میز کے حقائق سے یہ طے ہوگا کہ مغرب اور امریکا اپنے وعدوں کی پاسداری کے بارے میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔نیزاس سے یہ طے ہوگا کہ مذاکرات کب ختم ہوں گے یا کوئی معاہدہ طے پا جائے گا‘‘۔