ایران امریکا سے تعلقات بگاڑے یا سنوارے؟ داخلی سطح پر رائے منقسم

Iran and USA

Iran and USA

ایران (اصل میڈیا ڈیسک) الیکشن میں جو بائیڈن کی ممکنہ کامیابی کے تناظر میں ایران میں حکومتی حلقے امریکا کے ساتھ مکالمت کا عندیہ دے رہے ہیں۔ مگر قدامت پسند حلقے اسے ‘تبدیلی کا غلط تاثر قرار دیتے ہوئے جارحانہ طرز عمل کا اصرار کر رہے ہیں۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے عندیہ دیا ہے کہ روایتی حریف ملک امریکا کے ساتھ بات چیت کی گنجائش موجود ہے۔ سعید خاطب زادے نے اتوار 22 نومبر کو دارالحکومت تہران میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایران کے خلاف ‘امریکی جرائم مکالمت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ایران اور امریکا کے باہمی تعلقات کا مستقبل، ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا اور ایران کے مابین کشیدگی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کئی ایسے فیصلے کیے، جو ایران کے روایتی حریف ملک اسرائیل کے حق میں تھے۔ سب سے اہم پیش رفت جوہری ڈیل سے امریکا کی یکطرفہ دست برداری اور پابندیوں کی بحالی ہے۔ تاہم اب جبکہ امریکی صدارتی الیکشن کے غیر حتمی نتائج میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کامیاب ہو گئے ہیں، بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے ایران بھی ذرا لچک کا مظاہرہ کرے گا تاکہ اختلافات مکالمت کے ذریعے حل ہو سکیں۔ بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں اہم عالمی امور کے حل کے لیے سفارت کاری کا راستہ اختیار کرنے کا کہہ رکھا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خاطب زادے نے پریس کانفرنس میں امریکا پر ‘جرائم کے ارتکاب کا الزام لگاتے ہوئے اس ضمن میں کئی تاریخی واقعات کی مثالیں پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے ایرانی عوام کو مسلسل نشانہ بنایا۔ خاطب زادے کے مطابق عراق اور ایران کے مابین 1980 سے 1988 تک لڑی گئی جنگ میں بغداد کی حمایت انہی جرائم میں سے ایک ہے۔ ایرانی ترجمان نے رواں سال جنوری میں جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بھی تذکرہ کیا، جنہیں بغداد میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ ایران اپنے خلاف اقتصادی پابندیوں کو بھی ‘جرائم مانتا ہے۔

سعید خاطب زادے نے کہا کہ ان تمام وجوہات کی بنا پر امریکا اور ایران کے مابین کشیدگی رہی ہے لیکن ساتھ ہی ایک فریم ورک میں رہتے ہوئے مکالمت کی گنجائش بھی موجود ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایران اپنے خلاف ‘جرائم بھول گیا ہے۔

ایران میں اعتدال پسند مانے جانے والے صدر حسن روحانی نے بڑے محتاط انداز سے امریکی الیکشن میں جو بائیڈن کی ممکنہ کامیابی کا خیر مقدم کیا۔ مگر ملک میں سخت گیر نظریات کے حامل قدامت پسند حلقے اس سے نالاں ہیں۔ ایک انتہائی قدامت پسند مقامی اخبار نے ہفتے کو یہ سرخی لگائی، ”یہ وقت حملہ کرنے کا ہے، سمجھوتے کا نہیں۔ ایسے حلقوں کا الزام ہے کہ تہران حکومت ‘بہت بڑے شیطان امریکا میں تبدیلی سے غلط تاثر لے بیٹھی ہے۔