ایران کو 2018ء کے بعد امریکا کی پابندیوں سے 200 ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا: صدرر وحانی

Hassan Rohani

Hassan Rohani

ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کو 2018ء میں امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی عاید کردہ دوبارہ پابندیوں کے بعد سے 200 ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔

ایرانی صدر حسن روحانی نے ایک نشری تقریر میں ملکی معیشت کو امریکی پابندیوں سے پہنچنے والے نقصان کا یہ تخمینہ ظاہرکیا ہے۔انھوں نے کہا کہ’’اگر امریکا کی نئی انتظامیہ سابق انتظامیہ کی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتی ہے تو ہم نے اس کے لیے راستہ صاف کردیا ہے۔‘‘

انھوں نے کہا:’’بعض دوست یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکا کو پہلے ایرانی قوم کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنا چاہیے۔اس مالی نقصان کا حجم 200 ارب ڈالر سے زیادہ ہے لیکن ہم یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم ان نقصانات کے دعوے کو اگلے مرحلے کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔انھیں پہلے پابندیاں ہٹانےکے لیے اپنی خیرسگالی ظاہر کرنی چاہیے اور اپنی ذمہ داریوں کو پوراکرنا چاہیے۔‘‘

امریکا کے نئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری سمجھوتے میں دوبارہ شمولیت پر اپنی آمادگی کا اظہار کرچکی ہے لیکن اس نے یہ شرط عاید کررکھی ہے کہ ایران اس سے پہلے جوہری سمجھوتے کے تمام تقاضوں کو پورا کرے اور مقررہ حد سے زیادہ یورینیم افزودگی کی تمام سرگرمیاں معطل کردے۔

تاہم ایران یہ مطالبہ کرتا چلا آرہا ہے کہ امریکا کو پہلے ٹرمپ دور کی تمام پابندیوں کا خاتمہ کرنا چاہیے۔اس کے بعد ہی وہ جوہری سمجھوتے کی تمام شرائط کی پاسداری کرے گا اور یورینیم کو اعلیٰ سطح پر افزودہ کرنے کا عمل روک دے گا۔

امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں ایران سے 2015ء میں طے شدہ سمجھوتے کو خیرباد کہہ دیا تھا اور ایران کے خلاف سخت پابندیاں عاید کردی تھیں۔صدر بائیڈن نے حال ہی میں ڈونلڈٹرمپ کے اس دعوے کی بھی تردید کی ہے کہ امریکا کے جوہری سمجھوتے سے انخلا کے بعد ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں بحال ہوگئی تھیں۔

بائیڈن انتظامیہ نے سابق صدر کے بعض اقدامات کو کالعدم قرار دے دیا اور اس نے حال ہی میں نیویارک میں ایرانی سفارت کاروں کے داخلی سفر پر عاید بعض سخت پابندیوں میں نرمی کردی ہے۔واضح رہے کہ ایران ٹرمپ دور کی تمام پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہا ہے۔اس نے امریکا اور یورپی ممالک پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے گذشتہ ہفتے جوہری توانائی کے عالمی ادارے(آئی اے ای اے) کے معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے سے بھی روک دیا تھا۔