ایرانی صدارتی الیکشن میں نوجوانوں کی دلچسپی انتہائی کم

Iranian Presidential Election

Iranian Presidential Election

ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران میں اس وقت صدارتی الیکشن کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس الیکشن میں عوام کی شرکت اور ان کی طرف سے ڈالے گئے ووٹ سیاسی اور اقتصادی بحرانوں پر ایک ریفرنڈم کی حیثیت کے حامل ہوں گے۔

ایران میں رائے عامہ کے تازہ جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لوگ صدارتی الیکشن میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ نوجوانوں میں سیاسی اور اقتصادی بحرانوں میں تسلسل کی وجہ سی مایوسی پائی جاتی ہے۔ نوجوان نسل سیاسی پابندیوں کی وجہ سے بھی پریشان ہے۔ حالیہ برسوں میں سخت امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھی ایرانی عوام کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ایران میں نوجوان نسل جمہوریت کی متمنی ہے اور اسی لیے وہ سیاسی عمل میں کوئی زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کر رہی۔ ایک نوجوان لڑکی شیرین (نام تبدیل کر دیا گیا) کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ نئی منتخب شدہ قیادت ملک میں جمہوری اور سماجی آزادیاں متعارف کرانے میں کامیاب ہو گی۔

شیرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاہتے ہوئے بھی منتخب قیادت حکمران مذہبی اشرافیہ کے سامنے کوئی بڑا قدم اٹھانے سے قاصر رہے گی۔ عام تاثر یہ ہے کہ شیرین کی طرح ساری ایرانی نوجواں نسل مایوسی کا شکار ہے اور وہ سوشل میڈیا کی فوری آزادی کے حق میں ہے۔

ایرانی آبادی کا ایک بڑا حصہ اب بھی مذہبی اقدار پر عمل کرتا ہے۔ ایسے شہری یقینی طور پر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے انتخابی مراکز جائیں گے۔ ایسے شہریوں میں کم وسائل کے حامل سماجی گروپ بھی شامل ہیں۔ ایسے ووٹروں کا یقینی طور پر انتخاب سخت عقیدے کے حامل حلقوں اور مذہبی اشرافیہ کے پسندیدہ امیدوار ابراہیم رئیسی ہوں گے۔ رئیسی مغرب مخالف بھی ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں میں ابراہیم رئیسی بقیہ امیدواروں پر سبقت رکھتے ہیں۔

اس تناظر میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ شہروں، قصبات اور دیہات کے نوجوان شاید ہی ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کریں۔ نوجوان الیکشن کے دن گھروں میں رہنے کو فوقیت دے سکتے ہیں۔ حکومت کو بھی انتخابی شرکت کا تناسب کم رہنے کا خدشہ ہے۔

شیرین نے نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ وہ آزادی اور جمہوریت چاہتی ہیں اور ملکی صدر کے پاس اختیار نہیں کہ وہ عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی لا سکیں۔ ایرانی دارالحکومت تہران کی رہائشی اور فرانسیسی ادب کی بائیس سالہ طالبہ نے اپنا اصلی نام مخفی رکھتے ہوئے مزید کہا کہ جب ایسا کچھ ممکن ہی نہیں، تو پھر ووٹ ڈالنے کا مقصد کیا ہے؟

ایران میں مذہبی حکومتی اشرافیہ کا ایک ایسا نظام قائم ہے، جس میں منتخب صدر کے اختیارات بہت محدود ہیں اور طاقت کا سرچشمہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای ہیں، جو سن 1989 سے ایران کے سپریم لیڈر چلے آ رہے ہیں۔

اٹھارہ جون کے انتخابات کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے والے تمام نمایاں اعتدال پسند امیدواروں کو انتخابی جانچ پڑتال کرنے والے ادارے نے نا اہل قرار دے دیا تھا۔ اس ادارے میں سخت عقیدے کے حامل مذہبی علماء شامل ہیں۔ صدارتی الیکشن کی دوڑ میں شامل تقریباﹰ سبھی امیدواروں کو قدامت پسند قرار دیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں ایران کے شہروں میں رہنے والے لوگ زیادہ مسرت کا اظہار نہیں کر رہے۔

اعتدال پسند سیاست دان حسن روحانی سن 2013 میں صدارتی الیکشن جیت کر منصبِ صدارت پر فائز ہوئے تھے۔ ان کو خواتین اور نوجوانوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ روحانی ملکی آئین کے مطابق تیسری مدتِ صدارت کے اہل نہیں ہیں۔

وہ بھی انتخابی مہم میں ایرانی عوام کی آزادی کی باتیں ضرور کرتے رہے لیکن مذہبی حکومتی اشرافیہ کے سامنے بے بس رہے۔ یہی سوچ زیادہ تر نوجوانوں میں ہے کہ روحانی کوئی بھی وعدہ پورا نہ کر سکے۔