عراق میں مظاہروں کے دوران ایرانی لیڈروں کے خلاف جوتوں کا استعمال

Iraq Protests

Iraq Protests

عراق (اصل میڈیا ڈیسک) عراق کے مختلف شہروں میں حکومت کے خلاف پرتشدد عوامی مظاہرے جاری ہیں۔ عراق کے شہروں میں ہونے والے ان مظاہروں میں جہاں عراقی حکومت کے خلاف عوام تحریک چلا رہے ہیں وہیں مشتعل مظاہرین عراق میں ایرانی مداخلت کے خلاف بھی سراپا احتجاج ہیں۔ ایرانی لیڈروں سے نفرت کے اظہار کے لیے احتجاجی مظاہروں کے دوران ان کی تصاویر پر جوتے مار کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

عراق میں حکومت کے خلاف اٹھنے والی احتجاج کی لہر’ایران مخالف جوتا’ تحریک میں بدلتی جا رہی ہے۔ عراق میں مصلوب صدرصدام حسین کےسقوط کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب عراق میں ایرانی لیڈروں کے خلاف جوتے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ عرب دنیا میں توہین کی علامت ہے۔ عراق میں ہونے والے مظاہروں کے دوران ایرانی سپریم لیڈ رآیت اللہ علی خامنہ ای اور قاسم سلیمانی کی تصاویر کو جوتے مارتے دیکھا گیا ہے۔ عراقی عوام میں ایرانی رہ نمائوں کے خلاف غم غصہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ عراق میں ایران کی مداخلت کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سنہ 2008ء میں عراق کے ایک صحافی نے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتا پھینکا تھا۔ اس وقت عراق میں جوتا تحریک عروج پر ہے۔

درایں اثناء ایران کی سمندر پار عسکری کارروائیوں کی ذمہ دار تنظیم ‘القدس فورس’ کے سربراہ قاسم سلیمانی خفیہ دورے پر عراق کے شہر نجف پہنچے ہیں۔

بغداد کے تحریر اسکوائر میں مظاہرین اب اپنے جوتوں کا دوبارہ استعمال کر رہے ہیں۔ جنوبی عراق میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے۔ مظاہرین نے ایران سے منسلک جماعتوں اور ملیشیاؤں کے صدر دفاتر کو جلا دیا اور ایرانی قونصل خانے پر پٹرول بم پھینکے۔

حکومت مخالف ان مظاہروں جنہوں نے گذشتہ ماہ عراق کو ہلا کر رکھ دیا تھا معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ عراق میں اتفری بڑھ رہی ہے اور حکومت کا مظاہرین پر کنٹرول کم ہوتا جا رہا ہے۔

مظاہرین نے تہران سے قریبی تعلقات رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور ملیشیاؤں کو نشانہ بنایا ہے۔ عراق میں بغاوت اور لبنان میں اسی طرح کے حکومت مخالف مظاہروں نے ایک ایسے وقت میں ایران کے اہم اتحادیوں کے لئے خطرہ پیدا کیا ہے جب تہران پر امریکی پابندیوں کا دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔

کربلا سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ حسین علی جو بغداد میں احتجاج کرنے آئے تھے نے کہا کہ “یہاں عزت و وقارکی کمی ہے۔ ایرانی اس ملک کے لوگوں کے ساتھ جو برتاؤ کرتے ہیں وہ ناقابل قبول ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ایرانی سفارتخانہ حکومت کو کنٹرول کرتا ہے اور وہ مظاہرین کو دبا رہے ہیں۔

نیوز ایجنسی’اے پی’ کے مطابق مظاہرین کی اکثریت بنیادی طور پر شیعہ علاقوں سے ہے۔ ان مظاہروں نے عراق اور ایران میں اکثریت کی نمائندگی کرنے والے شیعوں کا قائد بننے کے ایران کے وژن کو نقصان پہنچایا ہے۔

بغداد کے تجزیہ کار واثق الہاشمی نے کہا کہ ایران کے مقرب شیعہ رہنماؤں کو شرمندگی کا سامنا ہے۔ ان مظاہروں کے بعد ایران عراق میں اپنے اثرو نفوذ کو کھو سکتا ہے۔

تحریر اسکوائر میں مظاہرین نے خامنہ ای اور سلیمانی کی تصاویر نذرآٹش کیں۔اس موقع پر مظاہرین ہیں پیدل بھاگ رہے ہیں۔ مظاہرین نے 16 سال قبل صدام کی معزولی کے بعد پیش آنے والے مناظر دہراتے ہوئے پوسٹروں پراپنے جوتے برسائے۔

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ بہت سے ثقافتوں کی طرح ، عرب ممالک میں بھی فطری طور پر جوتے کا استعمال توہین کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ گذشتہ ہفتے بغداد میں ایرانی جھنڈے کی ایک تصویر فٹ پاتھ پر پینٹ کی گئی تھی تاکہ مظاہرین اس پر چل سکیں۔

کربلا میں مظاہرین نے ٹائر جلاتے ہوئے ایرانی قونصل خانے کی دیواروں پر چڑھنے کی کوشش کی اور حکومت کے ساتھ ایران مردہ باد کے نعرے لگائے۔ مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کے طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوگئے۔

ایک ہفتہ پیشتر کربلا میں سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے تصادم میں 18 افراد مارے گئے تھے۔ اس وقت بھی مظاہرین نے کربلا میں ایرانی قونصل خانے پر دھاوے کی کوشش کیہ تھی۔

عراق کی طرح لبنان میں بھی حالیہ ہفتوں میں بھی اپنے حکمران طبقے کے خلاف بڑے مظاہرے دیکھے جا رہے ہیں۔ لبنان میں بھی مظاہرین ایرانی مداخلت اور اس کی اجارہ داری کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

پہلی بار شیعہ برادری نے حزب اللہ کے مضبوط گڑھ ہیں میں مظاہرے کیے۔ تاہم عراق کی نبست لبنان میں سیکیورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین کے خلاف کم سے کم طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لبنان میں پرتشدد اور ملک گیر احتجاج کے باوجود جانی نقصان کا تناسب کم ہے۔

حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں نے مظاہرین کے مطالبات پر ہمدردی کا اظہار کیا اور گذشتہ ہفتے وزیر اعظم سعد حریری کے استعفیٰ دینے کے بعد نئی حکومت تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ مظاہرین کے مطالبات پربھی سوال اٹھاتے ہوئے یہ دعوی کیا ہے کہ امریکا اور دیگر مغربی طاقتیں لبنانی عوام کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔