عراق میں مقتدیٰ الصدر کی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد کیا ہو گا؟

Muqtada al-Sadr

Muqtada al-Sadr

عراق (اصل میڈیا ڈیسک) میں ان انتخابات میں حصہ نہیں لوں گا کیوں کہ میرے لیے میرا وطن سب سے زیادہ اہم ہے‘۔ یہ الفاظ عراق کے ایک سرکردہ شیعہ رہ نما مقتدیٰ الصدر کے ہیں جن کی جماعت حال ہی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔ مقتدیٰ الصدر نے گذشتہ جولائی میں ایک ٹیلی ویژن تقریر میں کہا تھا کہ ’میں اعلان کرتا ہوں کہ میں اس موجودہ اور آئندہ حکومت سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں سے دور رہوں، چاہے وہ ہمارے ساتھ چلنے اور تعلق کا دعویٰ بھی کریں‘۔

الصدر کا الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھا کیونکہ انہوں نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا جب ناصریہ کے “الحسین” اسپتال میں آگ لگنے کے واقعےکو چند روز گذرے تھے۔ اس حادثے میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر غم وغصہ پایا جا رہا تھا۔

خبر رساں ادارے ’رئیٹرز‘ نے اس وقت ایک رپورٹ شائع کی جس میں واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ فیلو حمدی ملک نے کہا کہ الصدر کے اعلان سے ایسا لگتا ہے کہ ان کا مقصد اسپتال میں لگنے والی آگ ، بجلی اور پانی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کےنتیجے میں عوام کی عدم اطمینان سے دور رہنا ہے۔ کیونکہ عوام اس وقت احتجاج کررہے تھے۔ توقع تھی کی الصدر کی پارٹی انتخابات میں حصہ لے گی اوراچھے نتائج حاصل کرے گی مگر یہ بھی واضح تھا کہ خود مقتدیٰ الصدر الیکشن میں امیدوار نہیں بنیں گے۔

رواں اکتوبر میں ہونے والے عراقی پارلیمانی انتخابات کے نتائج نے محقق حمدی ملک کے تجزیے کی درست ثابت کیا۔ الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ ابتدائی نتائج کے مطابق “صدر تحریک” نے 73 نشستیں جیتیں ہیں۔ جو کہ اس کے سنہ2018 کے انتخابات میں حاصل ہونے والی سیٹوں سے زیادہ ہیں۔ سنہ2018ء کے الیکشن میں’سائرون‘ نے 54 نشستیں حاصل کی تھیں۔