عراق پارلیمانی انتخابات: مقتدیٰ الصدر جیت سے قریب تر

Moktada al-Sadr

Moktada al-Sadr

عراق (اصل میڈیا ڈیسک) پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق معروف شیعہ عالم دین مقتدی الصدر کی جماعت کو دیگر سیاسی پارٹیوں پر سبقت حاصل ہے۔ اس مرتبہ انتخابات میں ریکارڈ سطح پر بہت کم رائے دہندگان نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔

عراق میں گزشتہ اتوار کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے نتائج آنے شروع ہو گئے ہیں۔ ابتدائی نتائج اور پیر کے روز حکومتی اہلکاروں کی جانب سے جاری بیانات کے مطابق ان انتخابات میں ملک کے معروف شیعہ عالم دین مقتدیٰ الصدر کی جماعت کو سب سے زیادہ سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔

مقتدیٰ الصدر کے حامیوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ ان کی جماعت نے 329 نشستوں میں 73 سیٹیں حاصل کر لی ہیں۔ ابتدائی نتائج کے مطابق شیعہ گروپ کے ہی سابق وزیر اعظم نوری المالکی کی جماعت دوسرے نمبر ہے۔

سن 2003 میں عراق پر امریکی حملے اور پھر صدام حسین کی معزولی کے بعد سے ہی عراق میں شیعہ گروپ ہی حکومت سازی اور اقتدار پر کنٹرول میں آگے آگے رہا ہے۔

عراق میں 10 اکتوبر اتوار کے روز پارلیمانی انتخابات کرائے گئے تھے۔جس میں حیرت انگیز طور پر بہت کم رائے دہندگان نے حصہ لیا۔ سن 2019 میں ملک میں نوجوانوں کی قیادت میں ایک عوامی تحریک شروع ہوئی تھی جس نے ملک میں ایک طوفان برپا کیا اور اسی سے حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کے بعد یہ پہلے پارلیمانی انتخابات تھے۔

لیکن حکومت مخالف کارکنان کے وسیع انتخابی بائیکاٹ کے درمیان ہونے والے اس الیکشن نے عراق کی نوجوان آبادی میں زیادہ جوش و خروش نہیں پیدا کیا۔ عراق کے انتخابی کمیشن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ صرف 42 فیصد رائے دہندگان نے ہی اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ انتخابات کے مکمل نتائج اگلے 24 گھنٹوں کے اندر جاری ہونے کی توقع ہے۔

وزیر اعظم مصطفی الخادمی نے انتخابات کرانے میں کامیابی کا دعوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے میں اپنا فرض پورا کیا اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی۔

لیکن بہت سے افراد نے ان کے اس تبصرے پر شدید نکتہ چینی کی اور کہا کہ انتخابات میں لوگوں کا اتنی کم تعداد میں حصہ لینا اس بات کا مظہر ہے کہ لوگوں کا سیاسی رہنماؤں سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور موجودہ حکومت کے منصفانہ انتخابات کے انعقاد پر رائے دہندگان کی عدم اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔

عراق کی مجموعی چار کروڑ کی آبادی میں سے تقریباً ڈھائی کروڑ شہری ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔ لیکن اس میں سے صرف 42 فیصد نے ووٹ ڈالا، جو ایک ریکارڈ کم ترین ٹرن آؤٹ ہے۔ یہ شرح گزشتہ 2018 کے انتخابات سے بھی کم ہے، جس میں 44.5 فیصد رائے دہندگان نے اپنی رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔ بہت کم لوگوں کو ہی انتخابی نتائج سے کسی خاص تبدیلی کی توقع ہے۔

الیکشن مانیٹر کرنے والے ایک مقامی ادارے نے ووٹنگ کی رازداری کی خلاف ورزیوں کے واقعات ریکارڈ کیے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ووٹنگ کے دوران 41 فیصد ووٹرز کو سرکاری دستاویزات اور شناخت دکھانے تک کے لیے نہیں کہا گیا۔

بغداد میں انتخابی حکام نے میڈیا کی رسائی کو بھی کافی تک محدود کر دیا تھا جس کے بعد بہت سے صحافیوں نے بھی ان انتخابات پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ عراقی پارلیمان میں کل 328 نشستیں ہیں اور یہ انتخابات اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ملک کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا اور کس جماعت کی حکومت قائم ہو گی۔

حکومت کی جانب سے تمام طرح کی اصلاحات کے وعدوں کے باوجود بہت سے کارکنان نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کی کال دی تھی، کیونکہ حکومت نے مظاہرین کے خلاف نہ صرف سخت کارروائی کی بلکہ ہدف بنا کر قتل کے واقعات بھی پیش آئے تھے۔ ان کارروائیوں میں 600 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں دیگر زخمی ہوئے۔

پارلیمانی انتخابات سخت ترین سکیورٹی میں کرائے گئے۔ تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار پولنگ مراکز کے لیے ڈھائی لاکھ فورسز کو تعینات کیا گیا تھا۔

ملک میں سیاسی سطح پر فی الوقت اکثریتی شیعہ طبقے کا غلبہ ہے اور پہلے سے ہی کہا جا رہا تھا کہ اسی فرقے کے معروف عالم دین مقتدیٰ الصدر اور فتح اتحاد کے رہنما ہادی الامیری کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔

فتح اتحاد میں بیشتر وہ جماعتیں اور گروپ شامل ہیں جو کھل کر ایران کے حامی ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ مقتدیٰ الصدر بھی ایران سے ہی قریب بتائے جاتے ہیں تاہم عوامی سطح پر وہ اس بات کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ ایران کا عراق پر کوئی سیاسی اثر و رسوخ ہے۔