عراق : کشیدگی کے بعد امریکی عسکری کارروائیوں کا دوبارہ سے آغاز

US Forces

US Forces

عراق (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کے دو عسکری ذمے داران کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع (پینٹاگان) داعش تنظیم کے انسداد کے سلسلے میں عراقی فوج کے ساتھ اپنے تعاون کو جلد از جلد دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔ اس کا مقصد دہشت گرد تنظیم کو موجودہ صورت حال سے فائندہ اٹھانے سے روکنا ہے۔

ادھر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ امریکی افواج نے عراقی افواج کے ساتھ مشترکہ عسکری کارروائیوں کا بدھ کے روز دوبارہ آغاز کر دیا ہے۔ کارروائیوں کا یہ سلسلہ 3 جنوری کو بغداد میں امریکی فضائی حملے میں ایرانی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے فوری بعد رک گیا تھا۔

دریں اثنا مشرق وسطی کے امور کے لیے امریکی وزیر خارجہ کے معاون جوائے ہڈ نے العربیہ اور الحدث نیوز چینلوں کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ امریکی انتظامیہ تزویراتی شراکت کے تعلق کو مضبوط بنانے کی خواہاں ہے۔ انہوں نے عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے حوالے سے کسی بھی بات چیت کی تردید کی۔

ہڈ نے عراق پر زور دیا کہ وہ ایک مضبوط وزیراعظم کے تقرر میں جلدی کرے جو سیکورٹی فورسز پر کنٹرول رکھے اور ملک کو ترقی اور خود مختاری کی بالادستی کی جانب لے کر جائے۔

امریکی معاون وزیر خارجہ کے مطابق موجودہ وقت امریکا اور عراق کے لیے اس حوالے سے مناسب ترین ہے کہ وہ سفارتی ، مالیاتی، اقتصادی اور سیکورٹی سطح پر تزویراتی شراکت داری کی پاسداری کے بارے میں بات کریں۔ انہوں نے باور کرایا کہ یہ وقت انخلا کے بارے میں بات کرنے کا نہیں ہے۔

یاد رہے کہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے دو روز بعد 5 جنوری کو عراقی پارلیمنٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ملک میں تمام غیر ملکی افواج کے وجود کو ختم کیا جائے۔

امریکا نے 3 جنوری کو بغداد میں قاسم سلیمانی کو نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ یہ کارروائی عراق میں امریکی افواج کے اڈوں پر راکٹ حملوں اور بغداد میں ایران نواز گروپوں کی جانب سے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بولنے کے بعد عمل میں آئی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر بغداد حکومت نے ملک میں موجود 5200 کے امریکی فوجیوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا تو عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پیر کے روز بتایا تھا کہ عراق کی “تمام” قیادت انہیں نجی محافل میں آگاہ کر چکی ہے کہ وہ عراق سے امریکی فوجیوں کے نکل جانے کے اعلانیہ مطالبات کے باوجود اپنے ملک میں امریکی فوجی وجود کی تائید کرتے ہیں۔ تاہم پومپیو نے عراق میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔