سیرت النبی ۖ کی روشنی میں شہداء

Ghazwa Uhad

Ghazwa Uhad

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا

کدال کا لگنا تھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے خون جاری ہو گیا۔گویا ان کا جسم اس طرح تروتازہ تھا جیسے کسی زندہ انسان کا ہوتا ہے، یہاں تک کہ خون بھی خشک نہیں ہوا تھا اور خون شریانوں میں اس طرح جاری تھا کہ ذرا سی کدال لگتے ہی پیر سے جاری ہوگیا۔دوسری یہ بات سامنے آئی کہ ان لاشوں سے مشک جیسی مہک آ رہی تھی… یہ واقعہ غزوہ احد کے تقریباً پچاس سال بعد کا ہے، جب کہ مدینہ منورہ کی مٹی اس قدر شور(نمکیات والی)ہے کہ پہلی ہی رات لاش میں تبدیلی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔معلوم ہوا، جس طرح زمین انبیاء کے جسموں میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی، اسی طرح شہداء کے جسم بھی سلامت رہتے ہیں۔حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی ربیع رضی اللہ عنہ کو ایک قبر میں دفن کیا گیا، یہ ان کے چچازاد بھائی تھے۔بعض لوگ اپنے شہداء کو احد سے مدینہ منورہ لے گئے تھے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ انہیں واپس لایا جائے اور میدان احد ہی میں دفن کیا جائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے شہداء کے بارے میں فرمایا:

”میں ان سب کا گواہ ہوں… جو زخم بھی کسی کو اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں لگا ہے، اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس زخم کو دوبارہ اسی حالت میں پیدا فرمائیں گے کہ اس کا رنگ خون کے رنگ کا سا ہوگا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہوگی۔”غزوہ احد میں شہید ہونے والے صحابہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

”اے جابر! کیا میں تمہیں ایک بات نہ بتادوں؟… اور وہ یہ کہ جب بھی اللّٰہ تعالیٰ کسی شہید سے کلام فرماتا یے تو پردوں میں سے کلام فرماتا ہے لیکن اس ذات حق نے تمہارے باپ سے روبرو کلام فرمایا اور فرمایا، مجھ سے مانگو، میں عطا کروں گا۔انہوں نے کہا: ”اے باری تعالیٰ! مجھے پھر دنیا میں لوٹادیا جائے تاکہ وہاں پہنچ کر میں ایک بار پھر تیری راہ میں قتل ہوسکوں۔”

اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ میری شان کے خلاف ہے کہ مردوں کو دوبارہ دنیا میں لوٹاؤں۔ ”انہوں نے عرض کیا؛
”پروردگار! جو لوگ میرے پیچھے دنیا میں باقی ہیں، ان تک یہ بات پہنچادے کہ یہاں شہداء کو کیسے کیسے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔”

اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ترجمہ: ”اور اے مخاطب! جو لوگ اللّٰہ کی راہ میں قتل کیے گئے، انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مقرب ہیں۔انہیں رزق بھی ملتا ہیں۔”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنی دینار کی ایک عورت کے پاس پہنچے۔اس عورت کا شوہر، باپ،اور بھائی اس غزوہ میں شہید ہوئے تھے، ایک روایت کے مطابق ان کا بیٹا بھی شہید ہوا تھا… جب لوگوں نے انہیں یہ خبر سنائی تو انہوں نے فوراً پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہیں؟ ”

لوگوں نے بتایا: اللہ کا شکر ہے… آپ بخیر و عافیت ہیں۔”اس پر عورت نے کہا:

”میں آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔”پھر جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آتے دیکھ لیا تو بولیں:
”آپ خیریت سے ہیں تو ہر مصیبت ہیچ ہے۔” یعنی اب کسی غم کی کوئی اہمیت نہیں۔غزوہ احد میں حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں زخم آگیا تھا… یہاں تک کہ آنکھ ڈیلے سے باہر نکل کر لٹک گئی تھی۔لوگوں نے اسے کاٹ ڈالنا چاہا، اور اس بارے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاٹو نہیں۔”

پھر انہیں اپنے پاس بلایا اور ان کی آنکھ اپنے ہاتھ مبارک میں لے کر ہتھیلی سیاس کی جگہ پر رکھ دی۔پھر یہ دعا پڑھی:
”اے اللّٰہ! ان کی آنکھ کو ان کے حسن اور خوبصورتی کا ذریعہ بنادے۔”
چنانچہ یہ دوسری آنکھ سے بھی زیادہ خوبصورت اور تیز ہوگئی… حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کو کبھی آنکھ کی تکلیف ہوتی تو دوسری میں ہوتی، اس آنکھ پر اس تکلیف کا کوئی اثر نہ ہوتا۔
ایک اور صحابی کی گردن میں ایک تیر آکر پیوست ہوگیا… وہ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگادیا۔زخم فوراً ٹھیک ہوگیا۔
غزوہ احد میں اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔جنگ کے دوران ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں پکڑلیا، جب وہ بھی کٹ گیا تو دونوں کٹے ہوئے بازوؤں سے جھنڈے کو تھام لیا، اس وقت وہ یہ آیت تلاوت کررہے تھے۔
ترجمہ: ”اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہی تو ہیں، اس سے پہلے اور بھی بہت رسول گزرچکے۔”(سورة آل عمران: آیت 144)
جب انہوں نے جنگ کے دوران کسی کو یہ کہتے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیئے تو خود بخود ان کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہوگئے۔
اس کے بعد حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔
غرض جنگ ختم ہوئی اور شہداء کو دفن کردینے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی طرف روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت شہداء اور ان کے عزیزوں کے لیے یہ دعا فرمائی:
”اے اللّٰہ! ان کے دلوں سے رنج اور غم کو مٹادے، ان کی مصیبتوں کو دور فرمادے اور شہیدوں کے جانشینوں کو ان کا بہترین جانشین بنادے۔۔”

شہید کے درجات اور مقام کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور نبی کریم ۖ ہی جانتے ہیں

حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا: شہید کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں سات انعامات ہیں (1) خون کے پہلے قطرے کے ساتھ اس کی بخشش کر دی جاتی ہے اور اسے جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے۔ (2) اور اسے ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے۔ (3) عذاب قبر سے اسے بچا دیا جاتا ہے۔ (4) قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے اسے امن دے دیا جاتا ہے۔ (5) اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ (6) بہتّر حور عین سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے۔ (7) اور اپنے اقارب میں ستّر آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ (مسند احمد)

 DR Tasawar Hussain Mirza

DR Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا