اسلام دشمنی سرطان کے مرض کی طرح پھیلتی جا رہی ہے، ترک صدر

Recep Tayyip Erdogan

Recep Tayyip Erdogan

ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ مغربی اور دنیا ک متعدد ممالک میں اسلام دشمنی کا مرض سرطان کے مرض کی طرح سرعت سے پھیلتا جا رہا ہے۔

جناب ایردوان نے پہلے عالمی میڈیا و اسلام و فوبیا سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انتظامیہ کی نائن الیون کے بعد سے شروع کردہ ’مسلمانوں کو شیطان کا درجہ دینے‘ کی حکمت عملی نے کئی ایک معاشروں میں پہلے سے ہی موجود ہونے والی اسلام دشمنی کے وائرس کو مزید شہہ دلائی ہے۔اس سے قبل کچھ حد ہونے والی نسل پرست پالیسیوں نے اب سیاست میں سرایت کرتے ہوئے اپنے قدم مضبوط کیے ہیں اور اس نے مغرب نے اس دلدل سے نکلنے کے بجائے اس کی مزید گہرائیوں میں پھنسنے کو ترجیح دی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہودی نسل کشی پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرنے والے اب مسلمانوں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ آزادی کے خاتمے کے مقام پر خوشحالی کے بھی طویل مدت تک جاری نہ رہ سکنے کی حقیقت سے منہ پھیرنے والے در اصل اسلام کے خلاف نہیں بلکہ اپنے مستقبل سے دشمنی مول لیے ہوئے ہیں۔

مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی کو مغرب میں اسلام و فوبیا کا نام دیتے ہوئے اس میں نرمی لانے کی کوشش کی ہے تو ہم اس عمل کے اسلام دشمنی ہونے سے بخوبی آگاہ ہیں۔

مغرب میں تمام تر شہریوں کی سلامتی و تحفظ کے ذمہ دار سرکاری حکام کے اسلام دشمنی کی دوڑ میں شامل ہونے کی وضاحت کرنے والے جناب ایردوان نے بتایا کہ اسلام و فوبیا پر بحث کرنے کے بجائے مغربی ممالک کی آسان راہ کو اپنانا مسئلے کو حل کرنے سے اجتناب برتنے کا مظہر ہے۔

صدر ایردوان نے مزید کہا کہ صدیوں بھر تک اپنی روشن خیال شخصیات کی بدولت نسل در نسل اپنے معاشروں کی دین اسلام سے ہم آہنگی قائم ہونے والے ترکوں کے خوف سے یورپ نے اسے سیاسی آلہ کار بنایا ہے۔ دنیا بھر کے ساڑھے سات ارب انسانوں کو دین اسلام نہیں بلکہ اسلام دشمنی ایک عالمی خطرہ ہونے سے آگاہی کرائی جانی چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ بنی نو انسانوں کے امن و امان، سلامتی کے لیے حیاتی اہمیت کی حامل ’اسلام دشمنی کا سد باب کرنے کی کوششو ں کو تشکیل دیے جانے والے کسی مشترکہ عقل میکانزم کے ساتھ جاری رکھا جانا چاہیے۔ اسلام و فوبیا کا نشانہ بننے والے تمام تر معاشروں اور ممالک کو یکجا ہوتے ہوئے عالمی سطح پر ایک مضبوط خبر رسانی نیٹ ورک کا قیام شرطیہ ہے۔