جسے توڑو وہی لال

Islamabad Motorway Lahore

Islamabad Motorway Lahore

تحریر : شاہ بانو میر

جسے توڑو وہی لال
(پنجابی مثال)
جیہڑا پّنو اوہی لال
کچھ سال قبل کی بات ہے
اسلام آباد موٹر وے سے لاہور سفر کیا
کیا کمال موٹر وے ہے
پٹرولنگ کرتی پولیس کی گاڑیاں
کرپشن سے پاک الگ انتظام
جابجاہ
ہنگامی حالت میں کال کرنے پر
ایمرجینسی فون بوتھ
سائرن بجاتی مہذب ممالک کی طرح متحرک پولیس
کچھ کچھ فاصلے پر بنے
خوبصورت گارڈن پارکنگ کیفے ٹیریا
بچوں کیلیۓ جھولے
پٹرول پمپ سپر مارکیٹ
الغرض
ہر وہ سہولت جو کسی بھی یورپی ملک میں
آپ سوچ سکتے ہیں
یہ دور پرانا تھا
جس نے عوام کو سڑکوں کا جال
خوشحالی کاروباری وسعت کیلئے دی
عین عالمی معیار کی بنائی ہوئی موٹر وے
رات ہو یا دن
اس میں سفرمیں بے خوف و خطر کیا جاتا ہے
عرصہ کے بعد عمران خان حکومت میں مجھے اتفاق ہوا
نئی روڈ سے گوجرانوالہ سے شیخوپورہ جانے کا
سیالکوٹ روڈ اور نیو ائیر پورٹ روڈ بھی کھول دی گئی تھی
شیخوپورہ جاتے ہوئے ایک لمبی بے آب و گیاں سڑک تھی
جس پر سوائے ٹول ٹیکس کے
اور
کوئی سہولت نام کی بھی دکھائی نہیں دی
یہی حال عجلت میں کھولی گئی سیالکوٹ روڈ کا تھا
نہ پٹرول پمپ نہ حفاظتی انتظامات اور نہ ہی پٹرولنگ کار
شیخوپورہ زیادہ دیر رکنے کی بجائے
ہم دن ہی دن میں بہن کی طرف سے
روانہ ہو گئے
محض اس سڑک کی ویرانی طوالت اور بے سروسامانی دیکھ کر
کوئی ناگہانی حادثہ ہو جائے تو کیا ہوگا
کل سارا دن خبر گردش کرتی رہی ادھورے غیر معیاری موٹر وے
پر ہوئے المناک حادثے کی
دکھ کی بات ہر تھانے کا الگ بیان وقت الگ اور سٹوری الگ
تحریک انصاف کے ملک کا انصاف بے سروپا
وہ کام کرتے کیوں ہو جومستقل نبھاہ نہیں سکتے ؟
وسائل نہیں ہیں تو عوام پر ظلم ڈھاتے کیوں ہو؟
خود ہیلی کاپٹر پر جانا ہو تو زمین پر کیا ہو رہا ہے
کب نظر آتا ہے ؟
کتا فرات اور حکمران کی دی ہوئی مثالیں
آج گریبان پکڑ کر
اس ناعاقبت اندیشی کا جواب مانگ رہی ہیں
حادثہ ہو جائے تو
واردات کی ذمہ داری کونسا تھانہ لے گا؟
گھنٹوں یہی بحث ہوتی ہے
اتنے میں کسی کا گھر ہنستا کھیلتا چمن لٹ جائے
ادھورے نامکمل منصوبے کب تک
اس عوام کیلئے ڈکیتیوں کا چوریوں کا ذریعہ بنیں گی؟
کیوں نہیں تعمیر اور افتتاح سے پہلے سوچتے
مطلوبہ سہولیات مسافروں کو میسر ہیں؟
کیا ہنگامی حالات کیلئے
آلات حادثات سے بچنے کیلئے لوگ ہیں؟
اور
سڑک پر ہنگامی اطلاع کیلیۓ کوئی سہولت رکھی گئی ہے؟
پرانی بات ہے اسی پاکستان کی
انتظام دیکھیں
شیخوپورہ سے کالا شاہ کاکو کی جانب ہم آ رہے تھے
انٹر چینج سے ٹرن لیا اور ٹول ٹیکس ادا کیا
گاڑی کی اسپیڈ ایکدم بڑھا لی
حد فاصلہ کچھ اور لکھا تھا
لمحہ بھر بھی نہیں گزرا
کہ
سائرن بجاتی جلتی بجھتی روشنیوں کے ساتھ
پولیس کار سامنے آ گئی
جرمانہ تو دیا
لیکن
خوشی بہت ہوئی کہ میرا ملک بھی لائق ہو گیا
مجھے وہ وقت یاد آ رہا ہے
جب ریلیاں ہوتی تھیں
طالبان کے علاقوں میں اور محفوظ ہوتی تھیں کیسے؟
آج اندرون ملک بیٹیاں محفوظ نہیں؟
کیوں؟
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں
تیری رہبری کا سوال ہے
جب لاہور میں جلسے ہوتے تھے
یہی سڑکیں تھیں
اکیلی عورتوں کو خود دیکھا
گاڑیاں بھر بھر گانے گاتے سیٹیاں بجاتے
ہلہ گلہ کرتی ہوئیں پنڈی سے لاہور آتی جاتیں
دھڑلے سے اکیلی جاتی تھیں
فرق
کون بتائے گا
وہ جلسے میں رات ہو یا دن جا سکتی تھیں
اور
یہ خاتون اکیلی کیوں تھی؟
آرٹیکل تو لکھنا تھا
حکومتی معاونین کے اثاثہ جات کے انباروں پر
مگر
ملک میں جاری درندگی کی اس نئی لہر نے
حکومتی کارکردگی پر بہت سےنئے سوالوں کو جنم دیا ہے
ہر اگلا فتنہ پچھلے سے زیادہ خوفناک ہوتا ہے
معیار زندگی میں زمین آسمان کا فرق
اسکی اصل بنیاد ہے
صبح سے شام تک
ٹی وی پر چلتے
ریٹنگ بڑہاتے تھرڈ کلاس ڈراموں میں
غربت اور امارت کی وضاحتیں دیکھ کر
بپھرتے غریب لوگ جرائم کی جانب بڑہتے ان کے قدم
بیروزگاری اور بھوک بھی جس کی بنیاد ہے
یاد رہے
قرآن سے دوری ایسے ہی بے
بے راہ روی کے شکار معاشرے تشکیل دیتی ہے
درجنوں ایسے کیسسز میں کسی ایک درندے کو
سر عام پھانسی ہو جاتی تو
پھانسی عبرت بن جاتی ہر درندہ صفت سوچ کیلئے
معصوم کلیوں کا قتل عام
خواجہ سراؤں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک
سر عام ٹریفک سارجنٹ کوکچلنا
انصاف
اندھا بھی بہرہ بھی گونگا بھی ہے
ماضی میں قاضی قرآن مجید سے رہنمائی لیتا تھا
وہ فوری فیصلہ اسلام قرآن کی روشنی میں انصاف پر مبنی کرتا تھا
جب انصاف مفاہمت پسند ہو جائے
تو
روح کو لرزا دینے والےایسے حادثے تو ہوں گے
جب
دستور اور ملک کا ماحول غیر متوازن ہوگا
ایماندار بھوک سےنڈھال
اور
حرام کام اور شیطانی مشاغل
دونوں ہاتھوں سے بوریاں بھر بھر حرام سمیٹ کر
معتبر بنے ہوں گے
یہ تو ہوگا ہی
دولت کی بے ایمانہ تقسیم کا شاخسانہ ہے یہ
مساوی تقسیم جزبات کو معتدل رکھتی ہے
غربت جائز ضروریات پوری نہ ہونے پر لاوہ بن کر بہہ نکلتی ہے
آجائیے
موجودہ سیٹ اپ کی جانب
ٹی وی پر ایک کے بعد دوسرا معاون خصوصی آتا ہے
ہاتھوں میں کاغذوں کا پلندہ ہے
یہ کیا سن رہے ہیں کان
اب تو سب کے سب فرشتے تھے؟
مگر
دونوں کی وہی آف شور کمپنیز کی بحث جاری تھی
دونوں کی بیرون ملک وسیع و عریض جائیدادیں
حتیٰ کہ
ایک صاحب کے شاپنگ مالز بھی
اسحٰق ڈار بہت یاد آئے
جن کے ٹوئن ٹاور دکھا دکھا کر
انہیں دل کا مریض بنا دیا
گھنٹوں کے حساب سے کئی چینلز پر ان دونوں جو وضاحتیں
بیان دیتے دیکھا
کئی بار تو ایک صاحب نے فون بھی بند کر دیا
غالبا
آگے کیا کہنا ہے
وہ پیچھے سے ہدایات مطلوب تھیں
بے جان لہجے اور لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ
وضاحتیں
نامکمل ادھورے غیر یقینی جواب
لیکن
ان پر وزیر اعظم پاکستان نے اعتماد کی مہر ثبت کر دی
کیونکہ
ان معاونین کو فارغ کرنا
کرسی سے ہاتھ دھونا ہے
حیرت ہے
ایک حاضر سروس جج کی بیوی
بڑہاپے میں عدالت کے چکر کاٹ رہی ہے
ملک کے مایہ ناز صحافی رپورٹ سامنے لاتے ہیں
اس ملک میں جہاں
جہاں حاکم اعلیٰ کا دماغ اور اسکی ذہن کی سوئی
صرف ایک جماعت کے خاتمے کو ممکن بنانے پر اٹک گئی ہے
ملک کے ہر وزیر مشیر کے اثاثوں نے پچھلوں کے اثاثے ماند کر دیے
نام کے یہ موجودہ وزراء مشیران کہنے کو پاکستانی ہیں
انکی ساری کمائی بیرون ملک ڈالرز میں ہے
اب تو اپنے معاونین پرنگاہ دوڑائیے
جو آتا ہے اربوں کھربوں کا مالک کیسے؟
انہی چندکی وجہ سے پاکستانی بھوک سے مر رہے ہیں
یہ بھی ویسی ہی کمائی اور ویسی ہی کمپنیز ہیں
آپ نے جن کے لئے شور مچایا تھا
ان سمیت سب جان لیں
کہ
حرام کی کمائی دنیا اور آخرت
دونوں میں ہی ہلاکت اور بربادی ہے
جو جو نیا چہرہ نئے عنوان یا منصب سے
حکومت سامنےلاتی ہے
انکے اثاثہ جات کی تفصیلات سنتے ہی
آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں
عوام دہائیاں دیتی ہے
ہمارا حق یہ مٹھی بھر کھا رہے ہیں
خواہ
موجودہ ہوں یا سابقہ
ملکی اثاثہ جات کے اصل مالک
عوام نہیں یہی اشرافیہ ہے
یہ سب ایک ہی
تھالی کے امیر چٹے بٹے ہیں
سب ہی ایک جیسے ہیں
جیہڑا پّنو اوہی لال ایہہ

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر