اسلام آباد دھرنا: حکومت کا مظاہرین سے باضابطہ مذاکرات کا فیصلہ

Protesters

Protesters

اسلام آباد (جیوڈیسک) انتظامیہ کی جانب سے فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دینے والوں کو دی گئی گزشتہ رات 10 بجے تک کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد وزیر داخلہ نے مظاہرین کو مزید 24 گھنٹوں کی مہلت دے دی۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے دھرنے کے شرکا سے باضابطہ مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے وزارت داخلہ اور دھرنے کے شرکا کے درمیان رابطہ ہوا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اور دھرنے کے قائدین کے درمیان مذاکرات کسی بھی وقت شروع ہوسکتے ہیں جس میں دھرنامظاہرین کے وفد میں پیرعنایت الحق، شفیق امینی اور دیگرشامل ہوں گے جب کہ حکومتی وفد احسن اقبال، راجاظفرالحق اور اسلام آبادانتظامیہ پر مشتمل ہوگا۔

وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ دھرنے والوں کو مزید 24 گھنٹے کا وقت دیا جائے گا، تاکہ معاملے کو افہام تفہیم سے حل کیا جاسکے۔

انہوں نے بتایا کہ رات گئے ہم دھرنے کے شرکاء کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے، لیکن پیشرفت نہیں ہوئی۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کروانا قانونی تقاضا ہے، لیکن ہم کسی قسم کا ٹکراؤ نہیں چاہتے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ معاملات احسن طریقے سے نمٹ جائیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے مذہبی رہنماؤں اور مشائخ کرام سے بھی کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔

واضح رہے کہ ایک مذہبی و سیاسی جماعت ‘تحریک لبیک’ نے فیض آباد انٹرچینج پر 14 روز سے دھرنا دے رکھا ہے، جس میں وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

مذکورہ مذہبی و سیاسی جماعت نے یہ دھرنا ایک ایسے وقت میں دیا جب رواں برس اکتوبر میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم منظور کی تھیں، جس میں ‘ختم نبوت’ سے متعلق شق بھی شامل تھی، لیکن بعد میں حکومت نے فوری طور پر اسے ‘کلیریکل غلطی’ قرار دے کر دوسری ترمیم منظور کرلی تھی۔

تاہم الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے خلاف مذکورہ سیاسی و مذہبی جماعت نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔

16 نومبر کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے مظاہرین کو دھرنا ختم کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم احکامات پر عمل نہ ہونے پر گذشتہ روز ہائیکورٹ نے نوٹس لیا اور انتظامیہ کو پر امن طریقے سے یا طاقت کے استعمال کے ذریعے دھرنا ختم کروانے کا حکم دیا تھا۔

ہائیکورٹ کے نوٹس لینے کے بعد اسلام آباد انتظامیہ نے مظاہرین کو کل رات 10 بجے تک کی ڈیڈ لائن دی تھی، جو ختم ہوچکی ہے۔

ممکنہ آپریشن کی تیاریاں مکمل
واضح رہے کہ مظاہرین کو دی گئی کل رات 10 بجے تک کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعدانتظامیہ کی جانب سے ممکنہ آپریشن کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں ہیں۔

ذرائع کے مطابق سیکیورٹی تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامیہ نے ایف سی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 5 ہزار 800 اہلکار تعینات کر رکھے ہیں جب کہ پولیس کے تازہ دم دستے، بکتر بند گاڑیاں اور ایمبولینسز بھی فیض آباد انٹرچینج پہنچ گئی ہیں۔

علاوہ ازیں ایس ایس پی اسلام آباد ساجدکیانی بھی اسکواڈ کے ساتھ موقع پر موجود ہیں۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے نماز فجرکے بعد بذریعہ ٹیلیفون دھرنےکے رہنماؤں سےرابطہ کیا تھا تاکہ مذہبی مذہبی جماعت کے رہنماؤں سے مذاکرات ہو سکیں۔

گذشتہ رات وزیر داخلہ احسن اقبال نے راولپنڈی میں احتجاج ختم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر دھرنے والوں کو ختم نبوت کے حلف نامے کے حوالے سے اب بھی تحفظات ہیں تو وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

عوام تاحال مشکلات کا شکار
دوسری جانب عدالتی حکم، حکومت اور انتظامیہ کی اپیلیوں کے باوجود راولپنڈی-اسلام آباد کے شہری فیض آباد انٹر چینج پر جاری دھرنے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔

دوسری جانب انتظامیہ نے جڑواں شہروں کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے فیض آباد اور سیکٹر آئی 8 کے مکینوں کو غیر ضروری طور پر گھروں سے نہ نکلنے کی ہدایت کی ہے، جبکہ مری روڈ پر بھی دکانداروں کو آج دکانیں نہ کھولنے کی ہدایت کی گئی ہے۔