جیل کہانی غضب کہانی

Jail Prisoner

Jail Prisoner

تحریر : روہیل اکبر

سوشل میڈیا کے زریعے سرگودھا جیل میں قیدی کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کا واقعہ پیش آیا وہ تو ہر جیل کی کہانی بلکہ غضب کہانی ہے اسی جیل میں مئی 2019 میں قیدیوں نے سپرنٹنڈنٹ کو یرغمال بھی بنا لیا تھا جیلیں اصلاح کا گھر ہوتی ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ جرائم کی وہ یونیورسٹیاں بن چکی ہیں جہاں آکر بے گناہ فرد بھی جب باہر نکلتا ہے تو انڈر ورلڈ ڈان بن چکا ہوتا ہے ہماری پولیس تو مجرم پیدا کرنے میں سرفہرست ہے ہی مگر جیل پولیس ان مجرمان کو مزید دادا استاد بنانے میں مصروف ہے وزیر اعظم عمران خان کو پولیس کے ساتھ ساتھ جیل پولیس کے لیے بھی انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت فیاض الحسن چوہان کی موجودگی میں پنجاب کی جیلوں کا ظالمانہ، منافقانہ،آمرانہ اور کرپشن زدہ نظام اب بھی تبدیل نہ ہوا تو پھر شائد کبھی بھی تبدیل نہ ہو سکے گاکیونکہ اس وقت انکے پاس محکمہ داخلہ پنجاب میں مومن علی آغا اور شفقت اللہ مشتاق جیسے محنتی اور کچھ نہ کچھ بہتر کرجانے کے جذبہ سے سرشار افراد موجود ہیں جو حساس بھی ہیں۔

ذمہ دار بھی ہیں اور احساس کرنے والے بھی ہیں ان جیسے افسران سے کام لینا اب حکومت کی ذمہ داری ہے زندہ دلان لاہور کے شہریوں کا کچھ عرصہ سے خیال ہے کہ جب سے فیاض الحسن چوہان اور شفقت اللہ مشتاق محکمہ جیل کے معاملات دیکھ رہے ہیں تب سے کچھ نہ کچھ بہتری آنا ضرور شروع ہوئی ہے بلخصوص لاہور کے وسط میں موجود ڈسٹرکٹ جیل کے اندر بند قیدیوں اور حوالاتیوں جبکہ باہر ملاقاتیوں کو کچھ نہ کچھ بہتری کے آثار ملنا شروع ہوگئے ہیں ترقی یافتہ ممالک میں جیلوں کے اندر جو سہولیات ہوتی ہے وہ ہمارے ہاں جیل کے باہر شائد مڈل کلاس افراد کو بھی میسر نہ ہوں مگریہاں پر بھی پیسے والے اور بااثر قیدی ان سے ملتی جلتی سہولیات زور انجوائے کررہے ہیں جیلیں اصلاح کا گھرہوتی ہیں جہاں پر حکومت کے اخراجات ہوتے ہیں اور یہ اخراجات عام غریب فراد ہی پورا کرتے ہیں جو پیدا ہوتے ہی ٹیکس دینا شروع کردیتے ہیں مگر بدقسمتی سے جیل کے اندر کام کرنے والے ملازمین اپنی ڈیوٹی کا حق ادا نہیں کرتے یہاں پر ایک وارڈر سے لیکر اوپر تک ظالم بنا ہوا ہے اورانکا ہر کسی کے ساتھ رویہ آمرانہ ہوتا ہے ۔

جیل کے اندر بیٹھ کر باہر کی دنیا میں جرائم کروانے والے بھی دھڑلے سے اپنا کام کررہے ہیں یہی وجہ ہے ہماری جیلیں جرائم کی نرسریاں نہیں بلکہ یونیورسٹیاں بنی ہوئیں ہیں لکیر کے فقیر کے اصول کے مطابق ہر جیل ملازم نے اپنی نوکری پکی کرنے کے لیے جیل کو اپنی کمائی کا زریعہ ہی بنایا ہماری جیلوں میں تعینات ایک وارڈر سے لیکر اوپر تک سیاسی،سماجی اور پیسے کی رشوت میں ڈوبے ہوئے ہیں اس وقت پنجاب کی تقریبا 43جیلوں میں کوئی ایک ایماندار فرد ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو ناممکن ہوگا جیل سروس میں آنے والے تمام کے تمام افراد اپنی جوائننگ سے پہلے تک رشوت لینا سب سے بڑا جرم تصور کرتے ہونگے مار پیٹ انکے نزدیک بہت برا فعل ہوتا ہوگا بزرگوں اور خواتین کا انکے نزدیک بہت زیادہ احترام ہوتا ہوگا اور والدین کی تربیت کی وجہ سے انہیں گالی نکالنا تو دور کی بات اسکا خیال آنا بھی گناہ سمجھتے ہونگے زنا،شراب نوشی اور جھوٹ کو وہ اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے ہونگے بڑوں کو سلام چھوٹوں سے پیار اور انکی زبان کی مٹھاس پورے خاندان اور دوستوں میں مشہور ہوتی ہوگی مگر جیسے ہی وہ اس کرپشن زدہ نظام کا حصہ بنتے ہیں وہ پھر اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔

حکومت اگر این جی اوز سمیت عام شہریوں کو جیل کے اندر جانے اور وہاں پر بند قیدیوں حوالاتیوں بلخصوص بچوں اور خواتین تک رسائی دیدے تو ایسے ایسے حیرت ناک اور خوفناک قصے سامنے آئیں گے کہ زمین کانپ جائے اس وقت بھی جو افراد جیل میں بند اپنے پیاروں سے ملاقات کرنے جاتے ہیں انہیں بخوبی اندازہ ہوگا کہ جیلوں کے اندر کی کیا صورتحال ہے جیلوں میں بند افراد میں سے کسی ایک سے بھی اگر جیل کے اندر کے ماحول کے بارے میں پوچھا جائے تو کرپشن کہانی کھل کر سامنے آجاتی ہے یہ نظام آج سے خراب نہیں بلکہ کئی دہائیوں پر سے ایسے ہی چلا آرہا ہے ایسے ایسے ملزمان بھی جیلوں میں بند ہیں جو جیل میں رہتے ہوئے اپنے تمام دفتری معاملات نمٹا رہے ہیں آئے روز کسی نہ کسی پیشی کے بہانے جیل سے نکل جاتے ہیں اور پھر اپنے اپنے کام کرتے رہتے ہیں برسوں سے بگڑے ہوئے اس نظام میں یک دم بہتری نہیں آسکتی مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ بہتر ضرور ہورہا ہے ابھی پنجاب حکومت نے جیل کے قیدیوں کے لیے بہت اچھا اقدام کیا ہے۔

عرصہ دراز سے قیدیوں کو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وقت گذارنے کا ایک منصوبہ التوا کا شکار تھا مگر اب بزدار حکومت نے اسے تکمیل تک پہنچا دیا ہے محکمہ داخلہ پنجاب نے قیدیوں کو بیوی کیساتھ جیل کے اندر نئے تعمیر ہونے والے فیملی ہومز میں رہنے کی اجازت کا نوٹیفکیشن جاری کردیا اب بیوی کو قیدی خاوند کے ساتھ 3 روز تک رہنے کی اجازت ہوگی، قیدی کا 5 سال تک کا بچہ بھی والدین کے ساتھ رہ سکے گا فیملی ہومز میں رہنے کیلئے قیدی یا اس کی بیوی کو درخواست دینا ہوگی، متعلقہ ڈپٹی کمشنر نکاح نامے کی تصدیق کے بعد فیملی ہومز استعمال کی اجازت دے گا۔ فیملی ہومز صرف سزا یافتہ قیدی استعمال کرنے کے مجاز ہوں گے، قیدی فیملی ہومز کو ہر 3 ماہ بعد استعمال کرنے کا مجاز ہو گا محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق قیدی کو اپنی بیوی کیساتھ رہنے کے نوٹیفیکیشن پر فوری طور پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ جیلوں میں فیملی ہومز تیار ہیں جس میں ایک کمرہ،کچن اور باتھ روم کی سہولت موجود ہے، فیملی ہومز کی تعمیر 11برس قبل شروع ہوئی جس پر عملدرآمد اب شروع ہونے جارہا ہے گذرنے والے 11 برسوں میں صرف چندجیلوں میں فیملی ہومزبن سکے اب فیصل آباد، ملتان اور لاہور کی جیلوں میں بند قیدی ان فیملی ہومز میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ 3دن گذار سکیں گے اور اسکے لیے قیدی یا اسکی فیملی کو ایک درخواست نکاح نامہ فارم کے ساتھ متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو دینا ہو گی۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر