کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں!

Jamil Faizi Advocate

Jamil Faizi Advocate

تحریر : علی عمران شاہین

میں نے انہیں پہلی بار اکتوبر 2010 میں دیکھا تھا جب دفاع پاکستان کونسل کا دوبارہ احیا ہوا تھا۔کونسل کی جانب سے تب امریکی دہشت گردی بالخصوص پاکستان پر لگاتار ڈرون حملوں کے خلاف لاہور کی شاہراہ قائد اعظم المعروف مال روڈ پر بڑی ریلی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ریلی کا آغاز ناصر باغ سے ہوا اور جب یہ جی پی او چوک میں پہنچی تو جمیل فیضی صاحب ریلی کے مقصود و منتہا کے عین مطابق وکلا ساتھیوں اور دیگر دوستوں کے ہمراہ تہنیت و یکجہتی کے بینر لئے کھڑے تھے۔انہوں نے وہیں سے پرجوش نعرے بلند کئے اور پھر ریلی کے قائدین کے ٹرک پر سوار ہوکر جلسہ گاہ پہنچے۔ یہاں جلسہ عام میں ہی پہلی بار ان کا خطاب سننے کا موقع ملا۔ان کے نپے تلے انداز سے جچے تلے ادا کردہ لیکن ایمانی حرارت سے لبریز اور آہنی مہمیز لئے الفاظ نے جیسے سماں سا باندھ دیا۔پھر جب کبھی کوئی ایسی محفل سجتی تو وہ ایسے ہی بلند آہنگ ولولوں اور پرجوش جذبوں کے ساتھ تشریف لاتے اور سب کو اسی حرارت سے گرما اور پگھلا کر صیقل کرنے کی سعی میں جت جاتے جو انہیں ملک و ملت کی فوز و فلاح کی راہ پر چلتے کبھی تھکنے نہ دیتی۔

جولائی 2012 کی بات ہے کہ یورپی ممالک میں ایک بار پھر گستاخانہ خاکوں اور فلموں کی تیاری و تشہیر کی خبر منظر عام پر آئی تو وہ اپنے وکلا دوستوں کو لے کر اس عہد کے ساتھ لامتناہی جدوجہد کے عزم کے ساتھ عازم سفر ہوئے کہ جب تک جسم میں جان ہے ہم اپنے تئیں اور بساط کے مطابق دفاع حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم اٹھائے چلتے رہیں گے اور جہاں اور جیسے ممکن ہے اس نقارہ حقہ اور بانگ درا کو ہر کان تک پہنچاتے اور ہر اپنے پرائے قلب و جگر پر دستک دیتے رہیں گے۔اسی سوچ پر انہوں نے الامہ لائرز فورم و حرمت رسولۖ لائرز موومنٹ کی بنیاد رکھی اور امت کو متفقات پرجمع کرنے اور آگے لے جانیکی دھن میں تحریک اتحاد الامہ سمیت کئی ایسے فورمز تشکیل دئیے۔اپنے اس سارے مشن کا آغاز انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے مرکزی داخلی دروازے پر معروفِ عالم جی پی او چوک میں کھڑے ہوکر کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس نئی طرز کہن پر سجے گلشن کے خوشبو دور دور تک اپنی رعنائیاں اورضیا پاشیاں بکھیرنے لگے اور پھر یہیں سے میری ان کے ساتھ گہری قربتوں اور محبت و الفت کے نئیراہوں پر چلنے کی ابتدا ہوئی۔جیسا ان کانام جمیل فیضی تھا تو وہ واقعی ہمہ جہت و ہمہ وقت جمال و فیض کے ہر کمال میں اور عمل و کردار و گفتار میں اس سب کی معراج پر تھے…

اٹھنے بیٹھنے،چلنے پھرنے،ملنے جلنے،دوستی رکھ رکھاؤ،تعلق و میل ملاپ کے شاہ و بادشاہ تھے تو انداز گفتگو و بذلہ سنجی و لطافت و ظرافت کے اس سے کہیں زیادہ دھنی۔بات سے بات اور ہر بات کا تنک تابی سے ایسابرجستہ جواب کہ سب چاہیں کہ صرف وہی بولیں اور ہم سنتے رہیں،ساتھ ہی ساتھ شخصیت کی عبقریت کا یہ اثر کہ وہ بیٹھے رہیں ہم دیکھتے رہیں،ان کی ذات جمیلہ کی ہمہ جہتی کی لطافتیں بکھرتی رہیں اور ہم انہیں سمیٹتے رہیں۔جیسے انتہائی نفیس طبیعت و مزاج تھے ایسے ہی خوش لباس تو خامہ و قرطاس تھامنے پر ویسے ہی خوش نویس۔ان کے پاس ذکر کسی شعبہ زندگی کی ہو،ان کا مطالعہ اور یاداشت و جواب ہمیشہ سب سے بڑھ کر پایا۔دین و مذہب پر بات ہو تو قرآن و حدیث کے حوالوں اور دلائل سے یوں مدلل گفتگو کہ جیسے کوئی اس میدان کا علامہ فہامہ مخاطب ہے اور اگر بات شعر و ادب کی اور کوئی غلطی کرے یا اصلاح چاہے تو جیسے ادیب ملت موجود ہے پھر کیا فکر۔ اگر سلسلہ گفتگو معلومات عامہ پر ہو تو اس پر بھی یوں گرفت کہ کوئی ان جیسا کوئی جواب نہ ملے۔جس موضوع پر مجلس سجے،الفاظ یوں ان کی زبان سے لڑھکتے چلے جائیں جیسے سیپ کے موتی کسی نیم ڈھلواں سنگ مرمر پر سماں حرکت کرتے اپنی تنک تابی کا باندھیں….جب بھی ان کے پاس بیٹھے،من یہی چاہا کہ انہیں کچھ نہ سنائیں بلکہ انہیں ہی سنتے جائیں اور دل دماغ کو انہی کی باتوں سے منور کرتے رہیں۔

جس قدر الفتوں بھری باتوں کی حاضر جوابی و لفاظی سے اجتماع یاران میں وہ محفل جان بن جاتے وہ کمال میں نے زندگی میں کسی میں نہیں دیکھا…اور جب سب کے دلوں میں خوشیوں اور خوبصورت یادوں کی نئی سیج سجا دیتے تو پھر ساتھ ہی کہنے لگتے کہ اب اپنی اپنی تجویز دو کہ ہم کیسے دنیا کو اللہ کی اطاعت اور نبی مکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے سیرت کی راہ پر لاسکتے ہیں؟کہاں کہاں تک اور کیسے کیسے آوازہ حقہ کو پہنچا سکتے ہیں؟ انہوں نے یوں کتنے ہی نت نئے آئیڈیاز پر کام کیا۔کہیں ہفتہ وار دروس قرآن و حدیث تو کہیں سیمینارز،کانفرنسز، دعوتی لٹریچر اور جانے کیا کیا کچھ۔ہروقت یہی دھن کہ کچھ ایسا کرجائیں جو کسی نہ کسی کو بدلنے کا اور ہماری دو جہاں کی عزت ونجات کاذریعہ بن جائے۔میں نے جب کبھی کوئی اسی تحت کوئی رائے پیش کی تو کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی پس و پیش کی بلکہ مزید حوصلہ افزائی کرکے اسے آگے بڑھایا۔میرے ساتھ تو الفتوں کا سلسلہ کچھ ایسا رہا کہ کیفیت ان کے جانے کا جہاں یقین نہیں آتا تو ہر خیال کے ساتھ حالت ہر وقت یہی رہتی ہے “کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں”۔جو کہا،انہوں نے مان لیا،جہاں کہا ساتھ چل دئیے،سواری ان کی ہوتی،سارا زاد راہ ہمیشہ ان کا ہوتا اور سفر جاگسل ہوں یا لامحدود ان کی طرف سے انکار یا پس و پیش کا تصور ناممکن تھا اور پھر انہی گھڑیوں کی ان کے ساتھ باتوں سے سجی گرمئی محافل جس کی حرارتیں یقیناً سانس نکلنے پر ہی ٹھنڈی ہو پائیں گی۔ایک تو باہم یا انفرادی اٹھک بیٹھک کے رنگ و نور تھے اور ایک ان کا مجمع عام میں مخاطب ہونا کہ چلتے لوگوں کے قدم رک جاتے اور وہ انہیں سننے وہیں جی ہی چوک جہاں انہوں نے ایک منفرد پودا لگایا اور الگ جہاں سجایا تھا آگے بڑھنے کے بجائے یک دم ٹھہرنے اور ان کی آواز پر لبیک کہنے کے سوا کوئی چارہ نہ پاتے۔

اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی توحید سے محبت اتنی کہ نماز انتہائی محبت و انہماک سے ادا کرنا اور اسے ہی اپنی کل متاع حیات سمجھنا اور پھر اسی دین و وحدانیت الہی کی دعوت پیش اورتلقین کرتے رہنا ان کا جیسے مقصد حیات تھا تبھی تو اولاد کو حافظ قرآن بھی بنایا۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں ایک روڈ ایکسیڈنٹ کا شکار ہو کر چلنے پھرنے سے کئی ماہ معذور ہونیتک پہنچا تو وہ سب سے بیقرار لگے اور جہاں گاہے گاہے فون پر حال احوال معلوم کرتے وہیں خود چل کر ناچیز کے غریب خانے پر قدم رنجہ ارشاد فرمانے بھی تشریف لے آئے۔یہ کہانی ایک مجھ ناچیز تک محدود نہ تھی بلکہ ان کا ہر ہم جولی و ہم نوالاو ہم پیالا یہی سمجھتا کہ وہ مجھ سے ہی سب سے زیادہ پیار و محبت رکھتے ہیں اور مجھ پر ہی سب سے زیادہ اپنا سب کچھ فدا کرتے ہیں۔وہ جب کبھی جہاں کہیں ہوتے ان کی اول چاہت منشا یہی ہوتی کہ وہ میزبانی کا اعزاز بھی ہمیشہ انہی کے پاس رہے۔

شاید یہی وجہ تھی کہ ان کا پر اللہ نے کبھی رحمت ثروت کی کمی بھی نہ رکھی تھی۔وہ اپنے سچائی کی راہ کے مشن میں بھی باربار اور دوست و احباب کی خصوصی دعوتیں اسی نیت سیکرتے کہ انہیں اس مشن میں مزید تیز گام اور سبک رفتار کیا جائے اور جہاں کہیں کوئی رکاوٹ سجھائی دے تو اس کے حل کی سبیل نکالی جائے اور مزید راہیں تلاشی جائیں۔خدمت انسانیت کے تخیل و تفکیر سے اس قدر لبریز کہ ہر کس و ناکس کے لئے ہمہ وقت اپنا ہاتھ کھلا رکھتے حتی کہ تھرپارکر کے قحط زدگان تک کے لئے کنویں بھی عطیہ کئے اور کروائے۔زندگی کے آخری ماہ و سال میں لاہور میں فلاح انسانیت کے لئے ایک قیمتی قطعہ اراضی بھی عطیہ کرکے صدقہ جاریہ فیض یاب ہوئے۔جمیل فیضی صاحب کے ہمراہ چند سال کی یہ رفاقت جو بے شمار انمٹ یادیں چھوڑ گئی،میں ایسی گھڑیاں بیحساب و تعداد ہیں کہ جن میں سے ہر ایک کا رنگ الگ لیکن نرالا ہے بلکہ یہ احساس تو بیشمار لوگوں سے تب دیکھنے کو ملا جب آپ سے جہان فانی سے عالم ابد راہی سفر ہوئے تو کتنی ایسی ہستیاں بھی ان کے غم میں دم بخود و دعا گو نظر آئیں کہ جو “دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں” ۔اللہ کے دین کے سچے سپاہی کی حیثیت سے زندگی گزارنے والے جمیل فیضی ایڈووکیٹ جب کچھ عرصے کے لئے متحدہ عرب امارات جابسے تو وہی آہنگ اور وہی رنگ وہاں بھی جما لیا اور وہاں بھی نئے فورم بناتے اور ویسی ہی محفلیں سجاتے نظر آئے۔وہ گھڑی اور اس کا کرب و درد کبھی نہیں بھولے گا جب سوشل میڈیا پر ایک دوست کی ان کے پارے یہ پوسٹ دیکھی کہ وہ سخت علیل ہوکر ہسپتال ہی نہیں بلکہ وہاں وینٹی لیٹر پر منتقل ہوچکے ہیں اور اب ان سے ملاقات یا بات ممکن نہیں رہی ہے۔اس سے چند روز پہلے ہی ان کا فون آیا تھا اور وہ حسب روایت اپنے پاس آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آپ آئیں تو پھر مزید باتیں ہوں اور کچھ نئے دعوتی و تحریکی سلسلے چلا آگے بڑھا سکیں۔اب یہ دکھ زندگی کا ایک بڑا روگ بن چکا ہے کہ میں ان کی دعوت پر ان کے پاس کیوں نہ گیا۔ان کے ہسپتال پہنچنے کے بعد ہر لمحہ ہرسانس جیسے ان کی خیر مانگتے گزرا لیکن تقدیر کے لکھے وقت کوکون ٹال سکا یا ٹال سکے گا اور یہاں بھی یہی ہوا۔ان سے بچھڑے کتنے ہفتے مہینے بیت رہے لیکن آج بھی ان کے ملتے جلتے فون پر باتیں کرتے چند جملے چند لفظ ہمہ گونجتے رہتے ہیں کہ وہ جب حال معلوم کرنے پر پورے تجویدی لہجے میں “الحمد للہ رب العالمین”اور ساتھ ہی بات کرنے والے مخاطب کو”مائی لیڈر” کہہ کرآغاز کلام کرتے تو مخاطب الفت و محبت کی نئی ترنگ محسوس کرنے لگتا۔

حیات فانی کے آخری ایام جب انہیں ایک نئی طرز کی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا ہوا تو انہوں نے اپنی جلترنگ طبیعت و دوستوں کے ساتھ ہما رنگ قربتوں سے اسے نہ خود پر حاوی ہونے دیا اور نہ کسی کو محسوس ہونے دیا کہ وہ کس درد و کرب سے گزر رہے ہیں۔نماز عید الفطر انہوں نے حسب روایت ٹاؤن شپ لاہور میں حافظ عبدالماجد سلفی کی اقتدا میں ادا کی تو وہیں ان کے تینوں دیگر بھائی بھی موجود تھے جہاں وہ ایک ساتھ ایسے جمع ہوئے کہ قریب ماضی و حال میں ایسی نظیر نہ ملے اور پھر یہ ملاقات آخری ملاپ ہی ثابت ہوا۔جمیل فیضی بھائیوں کے ساتھ خوشیوں کے یہ لمحات سمیٹتے اپنی قیام گاہ بحریہ ٹاؤن یہ کہہ کر روانہ ہوئے کہ بہت تھکا ہواہوں کچھ آرام چاہتا ہوں اور چلتا ہوں۔کون جانتا تھا کہ وہ آرام کی اس راہ پر روانہ ہونے والے تھے جہاں اب صرف یہی کچھ ان کا منتظر تھا۔نصف شب ان کے بھائی مدثر فیضی کو ان کا فون آیا کہ جی گھبرا رہا اور طبیعت بگڑ رہی ہے۔بھائی وہاں پہنچے تو بخار سے تن بدن جیسے جھلس رہا اور سانس اکھڑ رہی تھی۔ایک دن اسی حال میں گزرا اور پھر حالت ایسی بگڑی کی بات وینٹی لٹر تک جا پہنچی۔ ہسپتال کے اس آخری سفر میں ان کے بھائی مدثر فیضی کے بقول ان کی زبان پر یہی جملہ جاری تھا۔”اے اللہ!میں تجھ سے راضی ہوں تو مجھ مجھ سے راضی ہوجا……”پھر اسی تکلیف میں ایسے ہی ہوش سے بیگانہ ہوئے کہ سب کو ہی ہوش سے بے گانہ کرگئے۔

9جون 2020 کی صبح وہ گھڑیاں قیامت صغریٰ جیسی ہی تھیں کہ جب ایک اور محسن اعظم و مربی و رہنما و دوست سیف اللہ خالد صاحب کا فون آیا اور انہوں نے یہ سماعت و حیات شکن خبر سنائی کہ جمیل فیضی صاحب داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور اب ان کے غسل اخیر و تکفین و تجہیز کا اہتمام کرنا ہے۔پھر جب ان کو ہمیشہ کے لئے رخصت کرنے کا وقت آیا تو ان کا دیدار بھی اس وجہ سے نصیب نہ ہوسکا کہ جو موت کے وقت شہادت کی دعا وہ عموماً و خصوصاً مانگا کرتیوہ یقیناً پوری ہوچکی تھی جو پہلے سمجھ بھی نہ آتی تھی۔اطبا نے بتایا کہ ان کے یوں رخصت ہونے کی وجہ کورونا کی وبا بنی ہے اور ہاں تبھی یاد آیا کہ حضور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایسی وبا سے چلے بسنے والے کو شہادت کا مڑدہ عظمیٰ سنایا ہے۔انہیں لامتناہی سفر پر رخصت کرنے ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد پہنچی تھی اور یہ وہ لمحے تھے جب لوگ اپنے پیاروں کی اجساد خاکی سے راہ فرار اختیار کئے ہوئے تھے کہ ان کے قریب آنے کا بھی سوچا تو موت یقینی ہے۔یہاں انہیں ہمیشہ کے لئے رخصت کرتے دعاکے لئے علامہ حافظ ابتسام الہی ظہیر اور بوجہ تاخیر مفسر قرآن استاد سیف اللہ خالد امامت جنازہ پر موجود تھے جنہوں نے باری باری رب کے حضور ان کے لئے آخری مناجاتیں نماز جنازہ میں درد دل سے پیش کیں۔وہ جو بچپن سے سنتے تھے کہ ایک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا،محض 55برس کی عمر میں جمیل فیضی صاحب کے رخصت ہونے سے واقعی پہلی بار اپنے شہر اور اپنے من تن کے عالم کا بالکل یہی حال ہوا اور تک ویسا ہی ہے،ان کی ہمہ وقت یادوں کے جھرکوں میں قلب و جگر اور جسم و جاں کے رویں رویں سے جہاں ان کی روح پر فتوح کے لیے مغفرت کامل کی دعائیں نکلتی ہیں وہیں ساتھ ہی یہ احساس بھی ساتھ ہی ہوتا ہے کہ رب العالمین ہمیں ان کا ساتھ جنتوں کے مقام علیین میں بھی عطا کرے…. واقعی کیا کہنے اس شخصیت کہ کیا ہی آزاد مرد تھا جس کے غم سے دل کبھی آزاد نہیں ہوتا تو اجل کی طرف سے تقدیر اور وقت مقررہ پر ہر نفس کی رخصتی کا اٹل فیصلہ ہی کچھ قرار دیتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ جمیل فیضی کی شکل میں ہمارے بیچ
اک روشن دماغ تھا کہ نہ رہا
اک جلتاچراغ تھا کہ نہ رہا۔
اور ہم تھے کہ ان کی قدرجانی نہ پہچانی اورانہیں کھو دیا

رب کریم آپ کی بخشش کاملہ اور مغفرت تامہ فرماکر ان کی روح پر فتوح کو اعلیٰ علیین کا مکین و مقیم بنائیں اور ہمیں وہی فکر و تحریک عطا کرے جو وہ لئے زندہ رہے اور جس کی حرارت سے وہ سب کو متحرک رکھنا اور دیکھنا چاہتے تھے۔ آمین یا خیر الغافرین

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر : علی عمران شاہین