جواہر لعل یونیورسٹی میں ہندو انتہا پسندوں کے حملے میں زخمی طلبا پر ہی مقدمہ

Jnu Protest

Jnu Protest

دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں اتوار کے روز نقاب پوش حملہ اوروں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے والے طلبا کے خلاف ہی پولیس نے مقدمہ درج کرلیا۔

دہلی پولیس نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں تشدد کا شکار طلبا یونین کی سربراہ ایشے گھوش سمیت 19 طلبا کے خلاف سیکیورٹی گارڈز پر حملہ کرنے اورتوڑ پھوڑ کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا۔ مقدمہ نہرو یونیوررسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے درج کرایا گیا ہے۔

بھارتی دارالحکومت دہلی کی جامعہ جواہر لعل نہرو کے 3 ہوسٹلز میں 4 جنوری کو درجنوں نقاب پوش حملہ آوروں نے طلبا پرلوہے کی راڈ، لاٹھیوں اور پتھروں سے حملہ کیا تھا جس میں اسٹوڈنٹ یونین کی سربراہ ایشے گھوش سمیت30 سے زائد طلبا شدید زخمی ہوئے تھے۔ نقاب پوش حملہ آور حملے کے دوران بھارت ماتا کی جے، وندے ماترم اور گولی مارو جے این یو غداروں کو کے نعرے لگا رہے تھے۔

حملہ آوروں نے لڑکیوں کے ہوسٹلز میں بھی داخل ہوکر طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ طلبا یونین کی صدر ایشے گھوش کو سر پر دو جگہ لوہے کی راڈ لگنے سے شدید زخم آئے۔ رپورٹس کے مطابق نقاب پوش حملہ آور کیمپس کے اندر کئی گھنٹے تک طلبا اور پروفیسروں کو زودوکوب کرتے رہے تاہم باہر موجود پولیس اندر نہیں آئی اور نہ ہی طلبا کو بچایا۔

تشدد کا شکار ہونے والی طلبا یونین کی سربراہ ایشے گھوش کا کہنا ہے کہ کیمپس پر مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ حملہ کیا گیا اور انہیں کئی لوہے کی راڈوں سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن طلباپر حملے کے لیے استعمال ہونے والی ہر راڈ کا جواب بحث و مباحثے سے دیا جائے گا۔

نہرو یونیورسٹی کے طلبا پر ہونے والے تشدد کے خلاف نیویارک میں بھارتی کونسلیٹ کے سامنے جامعہ کے طالبعلموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج کیا گیا۔

سوشل میڈیا پر کیمپس پر حملہ کرنے والے افراد کی کئی ویڈیوز گردش کررہی ہیں جن میں طلبا نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ نقاب پوش حملہ آوا آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے کارکن تھے جنہیں کیمپس میں موجود آر ایس ایس کی طلبا تنظیم سے بی وی پی کے کارکنوں کی مدد حاصل تھی۔

نقاب پوش حملہ آوروں کی جانب سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی پر طلبا پر حملہ کرنے کے خلاف اور طلبا کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیےممبئی میں احتجاج کیا گیاجس میں مظاہرین نے کشمیر کو آزاد کرو کے پوسٹرز اٹھائے ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کی منظوری کے بعد سے پورے بھارت میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ جمعے کے روز بھارت کی ریاست حیدرآباد میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے مارچ کیا تھا اور اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔