صحافت کا قتل

Journalism

Journalism

تحریر : ملک امجد علی

کسی بھی معاملے کو جانچنے پرکھنے اور تحقیق کے بعد تحریری شکل میں لاکر بڑے پیمانے پہ قارئین ،ناظرین اور سامعین تک پہنچانے کا نام صحافت ہے اور جو شخص یہ امور سر انجام دیتا ہے اسے صحافی کہا جاتا ہے صحافت کو ملک عزیز کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے اہم نکتہ صحافت کا یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی معاملے کو عوام سے باخبر رکھا جائے دور جدید میں پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ اب الیکٹرونکس میڈیا ،انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے بھی عوام الناس کو باخبر رکھا جارہا ہے۔

انٹرنیٹ کے ذریعے سیکنڈوں میں خبر دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے سندھ کے ضلع نوشہروفیروز کی تحصیل محراب پور میں ایک صحافی کی شہرت اس وقت سامنے آئی جب اس نے سندھ کی حکمران جماعت کے قائد کے ٹرین مارچ میں شریک شرکاء کو فی کس دو سو روپے دینے کی تہلکہ خیز خبر کا انکشاف کیا پھر اس صحافی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا اور اس کا انجام اسے منوں مٹی تلے لے گیا رسول آباد میں 1963میں ایک بچے نے آنکھ کھولی ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اس کی پہچان عزیز میمن کے نام سے تھی صحافت سے منسلک ہوئے ،تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک شعبہ صحافت سے وابستہ رہتے ہوئے خدمات سر انجام دیتے رہے 56سال کی عمر میں 16فروری2020ء کو نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوئے اور محراب پور میں امر ہوئے گئے۔

سینئرصحافی عزیز میمن کی نعش گودو نہر میں ایک اقلیتی برادری کی عبادت کے قریب سے ملی ہے، چرواہوں نے گودونہر میں نعش دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی مقتول صحافی کے گلے میں کیبل کی تارپھنسی ہوئی تھی جس سے شبہ ہے کہ انہیں مذکورہ تار سے گلہ دبا کرقتل کرنے کے بعد گودو نہرمیں پھینک دیا گیا، تاہم تحصیل اسپتال محراب پور کے میڈیکل آفیسر کے بیان میں کیبل تار سے گلا دبا کرکے قتل کی نفی کی گئی کیونکہ گلے میں تار کے نشانات نظر نہیں آئے سینئرصحافی عزیز میمن کے قتل کی اطلاع ملتے ہی محراب پور پریس کلب کے صحافی محمد شہزاد مغل،ملک مشتاق احمد، عبدالخالق مغل اور محراب پور کے موجودہ چیرمین فاروق احمد خان لودھی اور سابق ناظم حاجی منور بیگ مغل اور راقم الحروف اسپتال پہنچے، صحافیوں نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے، صحافی تنظیموں نے عزیز میمن کے قتل اور پولیس کی جانب سے تاحال ملزمان کا سراغ نہ لگانے پر اسپتال اور پولیس تھانے پر احتجاجی دھرنے دیئے۔

دوسری طرف وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، انسپکٹر جنرل سندھ پولیس سید کلیم امام نے محراب پور کے سینئر صحافی کو قتل کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی نوشہروفیروز ڈاکٹر فاروق احمد سے رپورٹ طلب کرلی ہے، ناقص کارکردگی پر ایس ایچ او محراب پور محمد عظیم راجپر کو معطل کردیا گیامقتول صحافی کی نمازِ جنازہ گورنمنٹ بوائز ہائیر سیکنڈری اسکول کے گراونڈ میں ادا کی گئی ا مرحوم کو ان کے آبای گاوں رسول آباد کے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔

مقتول صحافی کی نماز جنازہ میں سیاسی سماجی تنظیموں کے نمائندوں صحافیوں اور شہریوں کی بڑی تعدادمیں شرکت، نماز جنازہ میں سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سید ظفر علی شاہ ایم پی اے سید سرفراز شاہ،صوبائی وزیر سعید غنی،سابق وزیرِ قانون ضیاء الحسن لنجار،سپیکر صوبائی اسمبلی آغا سراج درانی،چیرمین محراب پور فاروق احمد خان لودھی،سابق ناظم حاجی منور بیگ مغل، سندھ جرنلسٹ کونسل کے مرکزی صدر غازی جھنڈیر،سندھ صحافی سنگت کے مرکزی نائب صدر بچل ہنگورو،جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے مرکزی کوارڈینٹر کامران ابڑو، پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبای رہنما آفتاب ملاح، قوم پرست رہنما ڈاکٹر نیاز کالانی، امداد علی چانگ،سید ہمایوں شاہ، شرافت علی ناز،صدر یونین آف جرنلسٹ نوشہروفیروز زاہد علی قائم خانی سمیت صحافیوں وکیلوں مختلف مکتبہ زندگی کے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

ان رسم سوئم 19فروری کو ادا کی گئی صحافی کا قتل بڑا المیہ ہے قاتلوں کو فوری گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اس سارے معاملے میں وفاقی حکومت خاموش اور سندھ حکومت آئیں بائیں شائیں کرتی دکھائی دیتی ہے مقتول کے وارثین اور صحافتی تنظیموں نے اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ صحافی کے قاتلوں کو گرفتار کرکے نشان عبرت بنا دیا جائے تاکہ آئندہ سے ایسا المناک واقعہ رونما نہ ہو یہ ایک صحافی کا نہیں بلکہ صحافت کا قتل ہوا ہے۔

Amjid Ali

Amjid Ali

تحریر : ملک امجد علی