صحافت باشعور ادارہ

Journalism

Journalism

تحریر : شاہ بانو میر

وقت کے گزرنے کے ساتھ جیسے صحافت کرنا دو بھر ہوتا جا رہا ہے
حق بات جس کے خلاف ہو
وہیں وہ لفافہ صحافی بن جاتا ہے
عدم برداشت کا یہ مظاہرہ گلہ گھونٹ رہا ہے
سوچ کا رائے کا
تبدیلی کا
موضوعات کیا ہوتے ہیں
ہمارے قلمکار بھولتے چلے جا رہے ہیں
قلمکار کا قلم کیسے کلیوں کی طرح موضوع چنتا تھا
اسکو اپنے افکار سے سجاتا سنوارتا تھا
ایک لڑی میں پرو کر قاری کو علم کا نیا راستہ دکھاتا تھا
اب مقبوضہ علاقوں کی طرح قلم اور قلمکار صحافی مبحوس لگنے لگے
کیسے؟
متنوع مضامین پڑہنے کو نہیں ملتے
آج صبح سے ہر چینل کو چیک کیا
کل کی کثیر الجماعتی کانفرنس
اور شیخ رشید کا شوشا
کہ
جنرل باجوہ کی میٹنگ میں سب بشمول مولانا خوشگوار موڈ میں موجود تھے
یہ سیاسی نفسا نفسی ہر روز ایک پھڑکتی مصالحے دار خبر سے
سیاست کی طرح
صحافت کو بنا رہے ہیں
مرچ مصالحہ سیاست کی زندگی ہے
صحافت علم سنجیدگی کے اعلی معیار کا نام ہے
ملک میں ایک سے ایک منجھا ہوا تجربہ ار معاملہ شناس صحافی موجود ہے
جن کے پاس ملک کی پوشیدہ ظاہری تمام درست خبریں موجود ہیں
لیکن
حقائق کی بجائے سیاسی کھچڑی کو روز نیا تڑکہ لگا کر عوام کی اصل موضوعات سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے
میڈیا کسی بھی ملک میں عوام کا ترجمان ہوتا ہے
نہ ملک کے بڑہتے ہوئے عوامی مسائل نہ انکا حل پیش کیا جاتا ہے
خواتین کاعدم تحفظ وطیرہ بنتا جا رہا ہے اس ملک کا
اس پریشان کن موضوع پر
کوئی سیر حاصل مفید گفتگو سننے میں نہیں آ رہی
نہ ملکی سفارتی کامیابیوں کاکہیں تزکرہ ہے
نہ کسی ہمسایہ مسلم ملک کے ساتھ کسی نئے منصوبے کی نوید
نہ بارڈر کی گھمبھیر صورتحال پر عوام کو آگاہی
نہ بیرونی بڑہتے ہوئے دباؤ پر حکمت عملی
ملک کی عوام نامی زمینی مخلوق کے سھارے یہی صحافی تھے
آج انہیں محدود حروف دیے جا رہے ہیں رپورٹنگ کیلیے
دو تین خبریں ملی جلی حکومتی اپوزیشن کی اور دن گزر گیا
کیا اس طرح بھارتی میڈیا یلغار کا سامنا کریں گے ہم؟
کچھ تو ملک کے مٹتے مدہم ہوتےتشخص کیلیے صحافت کی آزادی کا سوچیں
بیدار مغز سیاسی تنگ نظری کی نذر ہو گئے تو ملک ملک نہیں رہے گا
دستور نہیں رہے گا
محض زمین کا ٹکڑا جہاں جہالت کا راج ہوگا
صحافی کو خود سوچنےدیں
اس ملک کا مضبوط ستون صحافت ہے
اسے کمزور دیکھ کر ملک کی یتیمی اور عوام کی بے بسی نظر آتی ہے
صحافت کو آگے بڑہنے دیں اعتماد کے ساتھ کام کرنے دیں
صحافی ملک سنوارتے بھی ہیں
اور
ملک دشمن عناصر کی سرکوبی بھی کرتے ہیں
جان جوکھم میں ڈال کرحب الوطنی کے میدان میں جام شھادت بھی نوش کرتے ہیں
یہ غازی بھی ہیں اور شہید بھی
لیکن
کچھ مدت سے جیسے صحافت جامد ہو رہی ہے
مثلا
قوم کے مسائل کیا اور کل سے میڈیا گھوم کس بات پے رہا ہے
کل کی کانفرنس اور نواز شریف
اللہ اکبر
کتنا قیمتی وقت جو اس عوام کے مسائل پر لگایا ہوتا تو شائد کئی چراغ درندگی سے بچ جاتے
جو بچیاں شیر خوارگی میں تڑپ کر مر رہی ہیں
ان درندوں تک پہنچا جا سکتا تھا
جو معصوم چراغ روزانہ گل ہو کے گھر کوتاریک کر رہے ہیں؟
جو بنت حوا محافظوں کی تاخیر کی عمر بھرسزا بھگتے گی
اسکے کیس میں کوئی پیش رفت ہو جاتی
جس ملک میں بربریت کی بد ترین مثالیں اسکے اسلامی جمہوریہ ہونے پر ماتم کناں ہوں
وہاں حکومتی اولین ترجیح ان مفاد پرستوں پر بے دریغ وقت ضائع کرنا ہونا چاہیے
یا
ان گھروں کی داد رسی کیلیے کوئی لائحہ عمل طے کرنا چاہیے ؟
ریٹنگ کے بخار نے مجبور کر دیا
وہی مشہوری کے حریص سیاسی چہرےبلا کر مرچ مصالحے ڈال کر انہی دو سبجیکٹس پر بات ہی فائدہ دے گی
دنیا کا میڈیا ترقی کی نئی ایجادات سے عوام کو تفریح کے ساتھ علم بانٹ رہا ہے
یہاں ملک کا میڈیا سیاست سے شروع
ندامت پر ختم نشریات
کھایا پیا کچھ نہیں
گلاس توڑا بارہ آنے
وطن سے دور رہ کر اپنے وطن سے قریب رہنے کا میڈیا ہی ایک ذریعہ ہے
وقت اور کمزور نظام کی کھچی ہوئی مہمیز نے اس ذریعہ کو بھی جکڑ کر محدود کر دیا
ہم یہاں جس آزاد معاشرے میں رہتے ہیں
اداروں پر حکمرانوں کی حکومتی گرفت کوفت میں مبتلا کرتی ہے
سیاست میں مقابلہ کی بجائے پریشرائز کر کے مخالف کو ہرایا تو کیا جیتے؟
اینکر حضرات نےصحافت کو زندہ کرنے کی ایک کوشش کی ہے
یو ٹیوب پر انا چینل بنا کر کمائی کے ساتھ وہ سارا ذہنی غبار نکال لیتے ہیں
جس مواد پر میڈیا قدغن لگاتا ہے
صحافت کو کبھی کسی دور میں ختم نہیں کیا جاسکا
البتہ
سیاسی معاشی فوائد کیلیے
ریٹنگ کے بخار میں مبتلا کچھ صحافی نا انصافی کر جاتے ہیں
ایسے صحافی اپنی برادری میں بھی بے توقیر ہو جاتےہیں
صحافت پابندیوں کے باوجود اپنا بلند منصب جانے
نظام ادارے شخصیات سب کو اس قلم کی حرمت کے آگے سر نگوں ہونا ہوگا
قلم کو آزاد کرنا ہو گا
خواہ
حکومت کوئی بھی ہو
تنزلی کی ابتداء مقید قلم ہے
آزادی رائے اور آزادی صحافت کے بغیر
ذہن محدود ہوتے جائیں گے
سوچ زنگ آلود ہوتی چلی جائے گی
الفاظ لکھے نہ گئے تو ذہن سے محو ہوتے چلے جائیں گے
اور
زبان اظہار کا سلیقہ کھو دے گی
دور آجائے گا وہی پرانا پتھروں کا
دنیا بھی محدود اور سوچیں بھی محدود
ہم لفظ بھول جائیں گے اور زبان بولیں گے
اشاروں کی
اس سے پہلے کہ
حس کھو جائے
قلم اور زبان کو آزاد کرو

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر